گزشتہ سات دہائیوں سے ہماری قوم آزاد ھونے کا دعوی کر رہی ھےاور اسلام کے نام پر آزادی لینے کی دعوے دار بھی ھے تو کیا آج کے دور میں ایک خطہ ارض حاصل کر لینا ہی آزادی ھے؟ اور کیا اسلام کے نام پر آزادی حاصل کی ھے یا اسلام کا نام استعمال کیا گیا ھے آزادی حاصل کرنے کیلئے یقیناً ھمارا طرزعمل ہی اس کی وضاحت کر سکتا ھےاس کیلئے اپنے گریبان میں جھانکناھو گا کہ آخر ھم اسلام کسے سمجھتے ہیں اور اسلام کی اصل کیا ھے اور ھم اس پر کس حد تک عمل کرتےہیں
کیا صرف عبادات ہی اسلام ہیں یا پھر حقوق العباد اور اخلاقیات بھی اسلام کا طرہ امتیاز ہیں ؟آزاد ہونے کے چند ہی سالوں میں ہم دنیا پےواضح کر دیا کہ ھم کس حد تک مہذب قوم ہیں اور ھمارے اندر کتنی اہلیت ھے جس شرمناک ہوس اقتدار، اقرباپروری اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا ھم نے مظاہرہ کیا وہ آج بھی ھمارے ماتھے کا جھومر ھے. یعنی کےاب تک ھم اہل اور ایماندار قیادت پیدا نہیں کر سکے. جس کشکول کو ھم نےاس وقت تھاما تھا آج تک وہی تھامے ہوئے ہیں. جس طرح اس وقت کم تعلیم یافتہ اور غیر تربیت یافتہ قوم ھم تب تھے آج بھی ویسے ہی ھے ڈگریوں کے کاغذ ھمیں اقوام عالم میں اہل ثابت کرنے سے قاصرہیں ایک ریڑھی والے سے لےکر ملک کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں تک ھر ایک بھوکا ننگا ھے اور دوسروں کو اور ملکی اثاثوں کو نوچ کھانے کو تیار ھے.کیا یہ ھے اسلام کے اخلاقیات اور تربیت؟ کہاں ھے ہمارا عقیدہ آخرت جو مسلمان کو حرام سے باز رکھتا ھے. آج بھی انصاف ناپید ھے آج بھی غریب کی جان مال اور عزت ارزاں ھے. آج بھی استحصالی قوتیں غالب ہیں آج بھی ھماری وہ شناخت جس کے دعوے دو قومی نظریے میں کیے ناپید ہیں آج ہندو بنیے کی جگہ مسلمان بنیے موجود ہیں کہاں ھے وہ اسلام جس کا دعوی ھمارا تھا
اس قوم کو حکمرانوں کی نہیں بلکہ تربیت کی ضرورت ھے. حکمران اور نظام تو اس تربیت کا ثمر ہیں اور انسانی تربیت کا نظام اسلام سے بہتر کسی کے پاس نہ ھے. تو سوچیے ھم اپنی نئی نسل کو کیا سکھا رہے ہیں اور اس کے نتائج کیا ہیں. کیونکہ آج اگر یہ نہ سوچا گیا تو اگلے 30 سے 40 سال تک ھم سدھرنے والے نہیں. واعتصمو بحبل اللہ جمیعا..