غربت

In ادب
April 25, 2021
غربت

غُربت
تحریر سید صفدر بخاری
غریب روزاول سے ہی غلام تھا اور غلام رہے گا اسی غریب کو بازاروں میں سرعام نیلام کیا جاتا رہاہے او ر اب تک غلامی کا طوق اس کے گلے سے نہیں اترا یہی غریب بے چارہ روز اول سے ہی ظلم وستم کی چکی میں پیستا چلا آرہا ہےلیکن آج تک وہ آسودہ حال نہ ہوسکا سیاستدانوں کے منافقانہ نعروں کا سہارا لے کر اس نے اپنی زندگی بیتا دی سیاسی جلسے جلوسوں میں ووٹوں کے حصول کے لئے بانگ درا دعوے وعدے کہ ہم غریب کوروٹی ،کپڑا اور مکان دیں گے اور غربت کا ملک سے خاتمہ کریں گے بے چارہ غریب ان سیاستدانوں کے نعروں کا پیچھا کرتے کرتے اپنی جوانی بڑھاپے کے حوالے کرچکا اور کئی لوگ تو عالم برزخ کو سدھار گئے لیکن وہی پرانی ریت روایتوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے آج بھی وہی غریب ان سرابوں کا سہارا لے کر برباد ہورہا ہے غریب کے دامن سے مفلسی کاداغ نہ مٹ سکا.

بھوک ہمیشہ غریب کے آنگن میں محو رقصاں رہی بھوک سے بلبلاتے اس کے بچے جن کے اندر خواہشات کے طوفان امڈتے اس کے کچن میں آگ کی خاموشی ان کو خاموش کرادیتی ہے ہزاروں خواہشیں جنم لیتی ہیں مگر مایوسی اور آہوں میں بدل کر بے حس ہوجاتی ہیں خدا کی رحمت باراں کو دیکھ کر دست دعا بلند کرکے بن بلائے آنکھوں میں اشکوں کی لڑیوں کے ساتھ ساتھ بے اختیار منہ سے یہی الفاظوں کا ورد دہرایاجاتا ہے کہ اے مالک و خالق اس آفت کو ٹال دے کیونکہ یہی بارش جو کہ تیری رحمت ہے اُس کے لئے زحمت بن جاتی ہے اِس کی کچی مٹی کی دیواریں بادلوں کی ایک ہی گرج کے خوف سے گر کر زمین بوس ہوجائیں گی اسی طرح اس کی چادر اور چار دیواری کا تقدس بھی پامال ہوجائے گا روٹی کے پیسے نہیں دیوار کی مزدوری کہاں اور اس کے علاوہ انہیں دیواروں نے اُس کے ہر عیب پر پردہ ڈال رکھا ہے اِس کی ٹوٹی پھوٹی چارپائیاں اور لنڈے کی پھٹی پرانی رضائیاں جو کہ اندر ہی اندر اس کی عزت نفس کو قائم رکھے ہوئے ہے چند لمحوں کی بوندا باندی سے اس کے تمام عیب عیاں ہوجائیں گے یہی غریب جس کرب میں جیون گزار رہا ہے اس کا جیون افسردہ ہی رہا ہے زندگی خالق کائنا ت کی طرف سے دیا گیاایک انمول تحفہ ہے زندگی کو اگر قریب سے دیکھا جائے تو وہ کتنی حسین اور دلکش ہے اور وہ کسی نعمت سے کم نہیں لیکن اس غریب بےچارے کی زندگی ا یک بھیانک خواب ہے جس نے اس کا دن رات کاسکھ چین چھین لیا ہے سکون قلب کی خواہش کرتے کرتے اس کی جوانی پیری میں منتقل ہوگئی لیکن پھر بھی مداوا نہ ہو سکا صرف سوچوں کے تیغ و تبر ذہن پر نقارے کی طرح بجتے رہے انہیں سوچوں نے اس کی نیندیں حرام کردی مزدوری کرتے کرتے سارے دن کا تھکا ماندہ جسم اور ذہن رات کو بے خوابی کے عالم میں گھر جاتا ہے پھر وہی سوچیں اپنے حصار میں لے کر رات ساری اس کو فکر معاش کے نشتر چبھوتی رہتی ہیں نیند کوسوں دور رہتی ہے رات کا دورانیہ اتنا طویل ہوجاتاہے کہ گزرنے کا نا م ہی نہیں لیتا پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے اس کو کیا سے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے .

موجودہ حکومت نے غریبوں کے لئے ایک اسکیم کو متعارف کراکر حاتم طائی کا ٹائیٹل اپنے نام کرالیا ہے آٹا چینی میں چند روپوں کا ریلیف دے کر ڈپووںکا قیام کرکے لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں لگوا دیں ہیں لیکن اس گرفت میں بھی بے چارہ غریب ہی آیا ہے اگر وہ لائن چھوڑتاہے تو چولھے کے ٹھنڈے ہونے کا خطرہ منڈلانے لگتاہے حکومت نے غریبوں کے لبوں سے مسکراہٹیں چھین لی ہیں اس کے جیون کو بے کیف بنادیا گیا ہے ذہن بار بار خودکشی کا راہ اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے لیکن پھر خالق یزداں کا حکم اس کے آگے سیسہ پلائی کی دیوار بن کر رکاوٹ ڈال دیتا ہے کہ خودکشی حرام ہے اسی طرح وہ بے بس ہو کر ہردکھ درد کواپنے سینے سے لگا کر جینے کی آرزوئیں اپنا لیتا ہے لیکن پھر سے یہی جیون مزید دشواریاں پیدا کرکے اس کو بیماریوں میں دھکیل دیتا ہے بیماریوں نے اس کی دہلیز پر ماتھا ٹیک رکھا ہے مہنگی دوائیوں کے پیسے نہ ہونے کی صورت میں جعلی پیروں اتائیوں کے دروازوں پردستک دیتاہے ان سے مزید اپنے اندار کے روگ بڑھا لیتا ہے آٹے چینی کابحران مافیا کے توسط سے پھلا پھولا یہ مافیااتنا مضبوط اورطاقتور ہے کہ حکومت نے ان کے آگے گھٹنے ٹیک دئے ہیں اور عوام کی لائنیں لگوادی گئی ہیں پھر بھی متاثر یہی بے چار غریب ہی ٹھہرا عالم پیری میں لڑکھڑاتے قدم مجبوری کے ہاتھوں بے بس اور مجبور لوگ چھدے ہوئے پھٹے پرانے برقعوںمیں اپنے چہرے چھپائے ہوئے حالات سے مجبور خواتین آٹے اور چینی کے حصول کے لئے لمبی لمبی قطاروں میں انتظار کی اذیت سے دوچار ہوتی ہیں جوکہ کافی دشوار مرحلہ ہوتا ہے مستحقین اور غیر مستحقین پرمشتمل پورا شہرشہد کی مکھیوں کی طرح امڈ آتا ہے بھوک کی شدت سے بچوں کی لب کُشائی ماں باپ کےلئے ایک کڑا امتحان ہوتاہے جوکہ صبر کی تمام حدیں توڑ کر رکھ دیتاہے اپنے بچوں کی بھوک کی تکلیف کا درد برداشت نہ کرتے ہوئے اور اپنی انا کو قربان کرکے لمبی لمبی قطاروںمیں کھڑے ہوکر مثل سوالی قیمتاً آٹا چینی خریدتے ہیں یہ بھی حکومت کاایک بہت بڑا احسان عظیم ہے کہ غریب پروری ہورہی ہے آٹے میں چھان بورے کی وافر مقدار اور چینی میں مٹھاس کی کمی پھر بھی غریب انہیں حاصل کرکے اپنے آپ کو کتناخوش نصیب سمجھتا ہے کہ اس کی لاٹری نکل آئی ہے