Skip to content
  • by

لاجواب غزل”مجھ سے عجب یہ کھیل کھیلا جاتا ہے”

مجھ سے عجب یہ کھیل کھیلا جاتا ہے
چھین کر مجھ سے ہنسی میری
مجھے خوش رہنے کا سبق پڑھایا جاتا ہے

چھوڑ کر مجھ کو دربدر
اس کو ہر راہ میں لایا جاتا ہے
کامیاب کیوں ہوئے آخر؟
اس قصور پر مجھے بار بار آزمایا جاتا ہے

دکھا کر خواب ملن کے
مجھے جدائی کی دھوپ میں سلایا جاتا ہے
شرط مسکرانے کی رکھ کر , چلانا انگاروں پر
پھر واہ واہ کا نعرہ لگایا جاتا ہے
رکھ کر شرط ضبط کی, اسے سامنے لایا جاتا ہے
مجھے اس طرح امتحان میں ڈالا جاتا ہے

خنجر چلا کر میرے سینے میں
معاف کرنے کا فتوٰی لگایا جاتا ہے
چھپا کر راز کی طرح میرے حصے کی محبت کو
مجھے پیار کی ہوا کے لیے بھی ترسایا جاتا ہے
عقل سے بالا تر ہیں تقدیر کے فیصلے, میاں
میرے قاتل کو ہی میرا دلدار کہا جاتا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *