جانباز دیہاتی فرشتہ (محمد عامر سہیل)

In ادب
January 27, 2021

گندے نالے کے گرد چاروں طرف چیخ و پکار کی آوازیں گونج رہی تھیں کوئی کہہ رہا تھا گیارہ بائیس کو کال کرو کوئی کہہ رہا تھا کہہ چھیپا والوں کو فون کرو۔
بہت سے لوگوں نے ایک عورت کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا جو رو رو کر مسلسل یہی کہہ رہی تھی کہ مجھے چھوڑ دو اگر تم لوگ میرے بچے کو موت کے منہ سے نہیں نکال سکتے تو میں اپنے بچے کو اپنی آنکھوں کے سامنے کیسے مرتا دیکھ سکتی ہوں۔
ایک دیہاتی یہ گہرا ہجوم دیکھ کر رک گیا اس نے اپنی سائیکل سائیڈ پر کھڑی کی اور ہجوم میں سے ہوتا ہوا آگے پہنچ گیا۔ دیہاتی نے دیکھا کہ ایک بچہ گندے نالے میں گرا ہوا ہے دیہاتی نے جب بچے کو ڈوبتا ہوا دیکھا تو بہت زیادہ حیران ہوا کیونکہ سب لوگ چپ چاپ کھڑے بس یہ تماشا دیکھ رہے تھے لیکن بچے کو بچانے کے لیے کوئی بھی کسی قسم کی کوشش نہیں کر رہا تھا ۔ دیہاتی نے بغیر کچھ سوچے فوراً گندے نالے میں چھلانگ لگا دی۔ گندا نالا بہت گہرا تھا جس میں خود دیہاتی غوطے کھانے لگا۔ قریب تھا کہ بچہ موت کی نظر ہو جاتا لیکن دیہاتی نے اپنی جان پر کھیلتے ہوئے اس بچے کو نالے سے باہر نکال لیا۔اور بچے کو الٹا کر دیا۔ بچے کے پیٹ سے سارا گندا پانی باہر نکل گیا
اور اس کی سانسیں بحال ہو گئیں ۔بچہ بہت زیادہ رو رہا تھا دیہاتی نے بچے کو اس کی ماں کے حوالے کر دیا۔
عورت نے بچے کو سینے سے لگایا جو کہ بہت زیادہ رو رہی تھی۔لیکن ساتھ میں اس کی آنکھوں میں موجود آنسو اس بات کی گواہی بھی دے رہے تھے جیسے اس کو اس کی جنت واپس مل گئی ہو۔
دیہاتی کے چہرے پر عجیب چمک تھی لیکن اس کے کپڑے گندے پانی سے لت پت ہو چکے تھے جس کی وجہ سے لوگ اسے دور سے ہی شاباش دے رہے تھے۔
عورت آگے بڑھی اور دیہاتی کے آگے ہاتھ باندھ کر اس کا شکریہ ادا کرنے لگی۔ بھائی تم فرشتہ ہو تم نے میرے لخت جگر کی جان بچائی ہے۔
دیہاتی: نہیں بہن میں کوئی فرشتہ نہیں ہوں میں تو ایک ادنیٰ سا انسان ہوں اور ایک انسان کا دوسرے انسان کی مدد کرنا فرض ہے۔عورت نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا کہ بھائی اگر آپ انسان ہیں تو یہاں موجود لوگوں میں کوئی انسان نہیں ہے۔ یہ بات سنتے ہی سب لوگ نظریں چرا کر آہستہ آہستہ ایک ایک کر کے جانے لگے۔عورت، دیہاتی سے بولی بھائی میرا گھر ادھر قریب ہی ہے آؤ میں آپ کو کپڑے دھلواں دوں۔مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں آپ کا کس طرح شکریہ ادا کروں لیکن پھر بھی اگر کوئی میرے لائک ہو تو مجھے ضرور بتا دیں۔میں ایک اچھے(مالدار) گھر سے تعلق رکھتی ہو اگر تم نے پیسے لینے ہیں تو وہ بھی میں منہ مانگے دینے کو تیار ہوں۔
دیہاتی، عورت کی اس بات کو سن کر بولا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ بچے اور میری جان کی کتنی قیمت ہے تو میں ضرور اس کی قیمت مانگ لیتا۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہر بھلائی کا اجر اللہ پاک ہی دیتا ہے۔
عورت بہت زیادہ رو رہی تھی اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے، بس وہ دیہاتی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے چلی گئی۔
دیہاتی جب گھر جانے لگا تو اس کا اپنا سائیکل چوری ہو چکا تھا۔
کیا ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں؟
تحریر: محمد عامر سہیل