:امت مسلمہ کا قبلہ اوّل:
دنیا کے جن جن ممالک کو تکر یم کا درجہ حاصل ہے ۔ ان میں یروشلم یعنی بیت المقدس بھی ہے جو مسلمانوں ،یہودیوں اور عیسایئوں کے لیے یکساں باعث عزت و احترام ہے ۔
بیت المقدس کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ یہاں مختلف ادوار میں مختلف جنگیں برپا ہوئیں لیکن اس کی تعمیر اور ترقی میں اُس وقت کے حکمرانوں نے بھر پور حصہ لیا ۔یہاں پر حضرت سیلمان علیہ السلام کا مزار ، تخت داود اور حضرت عیسی علیہ اسلام کی تبلیقی کاوشوں کے نشان بھی ملتے ہیں یہ نہ صرف مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے بلکہ قبلہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے۔
حدیث شریف میں فر مایا گیا ہے۔ برابر ایک جماعت ایسی رہے گی جو میر ی امت میں سے جو حق کی علم بردار ہو گی ۔دشمنوں پر خالب رہے گی مخالف اُن کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔اسطرح کی جماعت رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا مقررہ وقت نہ آجائے۔ صحابہ اکرام رضہ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ جماعت کہاں ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا بیت المقدس اور اُس کے آس پاس ہو گی۔
:اسرائیل کی دہشت گردی :
اسرائیلی دہشت گردی پوری دنیا خاص طور پر امت مسلمہ کے لیے ایک گھناونی سازش بن کر رہ گئی ہے ۔ رمضان المبارک کے آخری ایام میں اسرائیلوں نے جس طرح سے مسجد اقصیٰ کے مسلمانوں پر ظلم کا بازار گرم کیا وہ کسی بھی شخص سے ڈھا چھپا نہیں ہے ۔اسرائلیوں کی دہشت گردی اور سفاکی نہ صرف امت مسلمہ کے سوچنے کے لیے لمحہ فکریہ بن گئی ہے بلکہ پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان بھی اس واقع سے بہت پر یشان ہیں۔
:مسلمان ممالک کا کڑا امتحان:
مسلمان ممالک پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ فلسطینی مسلمان بھائیوں ،ماوں ، بہنوں اور بچوںّ پر ہونے والے مظالم اور مسجد اقصیٰ کی بےحرمتی کا سختی سے نوٹس لیں اور متحد ہو کر پوری دنیا پر یہ ثابت کر دکھائیں کہ امت مسلمہ متحد ہے کیونکہ جب انسانیت کے ظلم وستم اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر بات آجائے تو صرف زبانوں کے تیر چلانے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ یہ وقت عمل کرنے کا ہے اپنے اپنے ملک میں بیٹھ کر با تیں کر نے کے بجائے
فوری ایکشن لیتے ہوئے موثر اقدامات پر توجہ دیں ۔ترکی اور پاکستان اس مسلئے پر پیش رفت کرنے پر مذاکرات کر رہے ہیں لیکن دنیا کے بیشتر ممالک ابھی تک خاموشی کا لبادہ پہنے بیٹھے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے آخر کیوں؟