Home > Articles posted by
FEATURE
on Jul 16, 2021

افغانستان میں خانہ جنگی ۔۔۔عالمی دہشت گردوں کےعزائم ………………………………………………………………….. تحریر:حمیداللہ خٹک افغانستان میں امریکا کی ذلت آمیز پسپائی صرف امریکا کی ہی شکست نہیں بلکہ پورے مغربی لاؤ لشکر کی شکست ہے۔ لیکن اس وقت ہمارے ہاں کاایک طبقہ امریکاکی شکست ماننے سے انکار کررہاہے.صرف اسی پراکتفانہیں کررہاہےبلکہ ط الب ان کےغلبے کوایک بہت بڑے خطرے, آفت اورمصیبت کے طور پرپیش کیاجارہاہے. گویا 20سالہ امریکی جنگ کےذمہ دار ط ال بان ہیں. حالانکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی. پورے افغانستان میں امن تھا. سرکش افغان قوم کوقابوکرناآسان نہ تھالیکن ط ال بان نے یہ کمال کردکھایا. نائن الیون کاواقعہ ہوا. امریکانےخود ہی القاعدہ پراس کاالزام لگایا, صرف الزام ہی نہیں,جج بھی خودبن گیا,نہ کوئی ثبوت دکھائی نہ کوئی دلیل مانی, ” سزا” کےطور پرافغانستان پریلغارکرکے ط ال ب ان کی حکومت کاخاتمہ کرکے لاکھوں افغانیوں کوخاک خون میں نہلادیا. اسی کا شہر ,وہی مدعی, وہی منصف ہمیں یقیں تھا ,ہمارا قصور نکلے گا امریکا نے نیوورلڈ آرڈر کے نام سے اپنی فرعونیت کا اعلان اس وقت کیاتھاجب افغانی قوم نے روس کوشکست دی تھی. پوری دنیاامریکاکےسامنے سربہ سجود ہوگئی۔ دنیا کی کسی بھی علاقائی یا عالمی طاقت کوامریکا کو چیلنج کرنےکی جرأت نہیں ہوئی.یہ طالبان تھے جنھوں نے مزاحمت کی ۔حکومت چلی گئی تھی لیکن انھوں نے امریکی قبضے کوتسلیم نہیں کیا۔20برسوں تک جنگ لڑی۔نتیجتاًاللہ تعالی نے ان کو فتح یاب کیا۔ جس طرح کمیونسٹ سوویت یونین کے انہدام اور کمیونزم کےخاتمےنےدنیاکوورطہ حیرت میں ڈالاتھابالکل اسی طرح آج امریکا اور اس کے زیر اثر طاقتیں یہ بتانے میں ناکام ہیں کہ دنیا کے سب سے کمزور گروہ کے مقابلے پر دنیا کی طاقتور ترین فوج کو شکست کیوں کر ہوئی.40 سے زیادہ ممالک کی فوج 20 سالہ طویل اور مہنگی ترین جنگ اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکی۔ یہ بات نوشتہ دیوارہےکہ افغانستان میں امریکا کا قائم کردہ نظام باقی نہیں رہے گا۔ افغان ط الب ان فاتح ہیں۔ امریکا شکست ہی نہیں شکست فاش کھا گیا ہے۔ ایمان نے ٹیکنالوجی کو شکست دے دی ہے۔ یہ وہ بات ہے جوہمارے کچھ دوستوں سے ہضم نہیں ہورہی۔یہی لوگ پروپیگنڈاکررہے ہیں کہ طالبان کی وجہ سے افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا۔طرح طرح کی افوہیں پھیلائی جارہی ہیں اورکنفیوژن پیداکرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پہلی بات تویہ ہےکہ طآلبان کےرہ نماکہ رہے ہیں کہ وہ افغانستان کےاندرجنگ نہیں کریں گے. اوراپنی سرزمین کسی کےخلاف استعمال کریں گے، نہ کسی کوافغانستان میں مداخلت کی اجازت دیں گے. دنیانے دیکھاکہ ماضی کے برعکس افغان ط ال ب ان نے میدان جنگ کی طرح سفارت کاری اور ڈپلومیسی کے محاذ پر بھی اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ماناکہ ان کے دلوں میں انسانیت کا دردکوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اور انھیں افغانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی بڑی فکر ہے۔ لیکن اس سے قبل 20 برسوں تک امریکانے افغانستان میں جوخون کی ہولی کھیلی, لاکھوں بےگناہوں کوتہ تیغ کیا اورکروڑوں افغانیوں کوغلام بنایا. اُس وقت یہ انسانی حقوق کےچیمپیئن کہاں سوئے تھے۔ بگرام، ابوغریب اور گوانتاناموبے کے ٹارچرسیلوں میں لوگوں پرامریکی درندے اورمغربی وحشی جس طرح انسانیت سوز مظالم کے پہاڑ توڑ رہےتھےجن کی تفصیل جان کر چنگیز و ہلاکو بھی بونےنظر آنےلگتےہیں۔ اُس وقت یہ افغانیوں کے ہمدردکہاں تھے؟ امریکا نے افغانستان پر حملہ آور ہونے کا سبب یہ بتایا تھا کہ انھوں نے القاعدہ کو پناہ دی ہوئی ہے جو نائن الیون کے واقعے کے ذمے دار ہیں۔ ملا محمد عمر نے پیش کش کی تھی کہ وہ شواہد اور ثبوت پیش کریں ہم خود کارروائی کریں گے. لیکن چونکہ افغانستان پرحملے کایہ محض بہانہ تھا اصل مقصد دنیا کے معدنی وسائل پر قبضہ کرناتھاایسےمذموم مقاصد کے راستے میں رکاوٹ اورمزاحمت کرنے والے ہر فرد، گروہ، جماعت اور ملک کو دہشت گرد قرار دے کر کچل دیا گیا، انسانی حقوق کے ان علم برداروں اورافغانیوں کے درد میں گھلنے والوں کویہ بھی یاد نہیں رہاکہ امریکانے عراق پر حملہ آور ہونے کےلیےبھی جھوٹ بولاتھا. شام، یمن اور لیبیا بھی اسی تسلسل میں تباہ ہوئے۔ عالمی امن شیطان امریکاکی وجہ سےخطرے میں پڑ چکا ہے۔اوراس وقت امریکا دنیاکاسب سے بڑادہشت گرد ہے۔اب اگرخداناخوستہ خانہ جنگی ہوئی تواس کےذمہ دار امریکا, مغرب اوربھارت ہوں گے.امریکانےافغان حکومت کومذاکرات میں فریق تک نہ بنایا,بگرام ایئرپورٹ سے رات کی تاریکی میں نکلتے وقت اس کواعتماد میں لینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی. افغان حکومت کی حیثیت امریکاکے غلام سے زیادہ کچھ بھی نہیں.لیکن ایک طرف یہ حکومت طالبان کی قوت کوماننے اوربالادستی تسلیم کرنے سے انکاری ہےدوسری طرف بھارتی طیارے اسلحہ پہنچانے میں مصروف ہیں. ان کی کوشش اورخواہش ہے کہ افغانستان میں فساد اور خوں ریزی جاری رہےوہ اس خواہش کو زمینی حقائق کانام دے کر طالبان کواس کاذمہ دارٹہرانے کی کوشش بھی کررہےہیں۔ شکست خوردہ فوج کایہ طریقہ رہاہے کہ وہ اپنے پیچھے بارودی سرنگیں لگاکرجاتی ہیں. امریکاکےساتھ بھارت بھی سازش میں شریک ہونے کی وجہ یہ ہےاس کی اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری ڈوب گئی. افغانستان میں امریکی مظالم پر خاموش رہنے والو! جمع خاطر رکھو کہ اللہ کےفضل سے اس خطے میں ان شیطانوں کے مذموم عزائم اب کامیاب نہیں ہوں گے۔ بین الافغان مذاکرات بہت جلد منعقد ہوں گےاورکامیاب ہوں گے۔ان شاءاللہ

FEATURE
on Jul 14, 2021

افغانستان میں جیتا کون؟ ہارا کون؟ امریکہ کے ایک معروف تعلیمی اورتحقیقی ادارے براؤن یونی ورسٹی کے مطابق 20سالہ افغانستان جنگ میں 47 ہزار افغان شہری، 70 ہزار افغان سپاہی، ڈھائی ہزار امریکی، اتحادی افواج کے ساڑھے 11 سو سپاہی اور چار ہزار کے قریب امریکی فوج سے وابستہ سیویلین ٹھیکیدار (Contractors) مارے گئے۔اس قتل وغارت اور شوقِ جہاں بانی پرامریکہ کو سوا دو ہزار ارب (20 کھرب 260 ارب) ڈالر جھونکنے پڑے۔ افغان شہریوں کی ہلاکتوں کی یہ تعداد حقیقی اعدادو شمارسے کہیں کم ہیں۔ جانی نقصان کےاعدادوشمارکودیکھاجائےتوامریکی فتح یاب, افغان قوم اورط ال ب ان(سٹوڈنٹس) شکست خوردہ دکھائی دیتے ہیں. لیکن فتح وشکست کاپیمانہ صرف جانی نقصان نہیں ہوتا, بلکہ عزم وہمت, استقلال کےساتھ مقاصدکے حصول اور عدم حصول پر فتح وشکست کے فیصلے ہوتے ہیں. امریکی اہداف کیاتھے؟ امریکہ مُلّا عمر کو پکڑنا چاہتا تھا. امریکہ ط ال ب ان (سٹوڈنٹس) کو ختم کرنا چاہتا تھا. امریکہ افغانستان میں حقیقی جمہوریت لانا چاہتا تھا. امریکہ افغانستان میں فوج اور پولیس کی ایسی تنظیم نو چاہتا تھا جواپنے پائوں پرکھڑی رہ سکیں. کیاان اہداف میں سے ایک ہدف بھی امریکانے حاصل کیا؟ جواب یقیناً نفی میں ہے. خود امریکی سی آئی اے کہہ رہی ہے کہ امریکہ کے انخلا کے بعد صرف چھے ماہ میں اشرف غنی کی حکومت گر جائے گی۔ معروف امریکی جریدے “دی اکانومسٹ” کی حالیہ رپورٹ abdoning Afghanistan America’s longest war is ending in crushing defeat, july,10th 2021کےمطابق” سٹوڈنٹس کو اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کی پاداش میں امریکا نے اقتدار سے بے دخل کیا تھا ,وہی سٹوڈنٹس ایک دفعہ پھر اس وقت خوف اور دہشت کی علامت بن کر واپس آئے ہیں.وہ آدھے سے زیادہ افغانستان پر قبضہ کر چکے ہیں اور باقی آدھے پر قبضے کی دھمکیاں دے رہے ہیں. انہوں نے ملک کے بیش تر مضافاتی علاقوں سے افغان فوج کو نکال باہر کردیا ہے, افغان فوج چند شہروں اور قصبوں تک محدود ہو گئی ہے.پست مورال کی حامل افغان فوج اپنی پوسٹیں ازخود خالی کر رہے ہیں.پچھلے ہفتے ایک ہزار فوجی شمال مشرقی صوبے بدخشاں سے بھاگ کر تاجکستان چلے گئے. سٹوڈنٹس اب تک شہروں پر قبضہنہ کر سکے, وہ افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے سب علاقوں پر قبضہ کرنے کی بجائے آہستہ آہستہ حکومت کے قدم اکھیڑنے کو ترجیح دیتے ہیں. حالات واضح طور پر ان(سٹوڈنس) کے حق میں ہیں. پس قدمی سے امریکا کی ساکھ کو کتنا نقصان پہنچا؟ یہ ایک بحث طلب موضوع ہے, تاہم بےپناہ دولت اور فوجی طاقت کے باوجود امریکا افغانستان میں اپنے پاؤں پر کھڑی ایک مضبوط حکومت کے قیام میں ناکام ہوا بلکہ جن باغیوں کو کچلنے کے لیے امریکاافغانستان آیا تھا اس سے بھی شکست کھا گیا. 2001ء میں افغانستان کے بعض لوگوں کا خیال تھا کہ انہیں طویل سِول وار اور ملائیت سے نجات ملے گی. ایک عرصے تک نظر آ رہا تھا کہ ایسا ہوگا.لیکن آج ایک عام افغان کی زندگی پہلے سے کہیں زیادہ عدمِ تحفظ کا شکار ہے. بدامنی کا حال یہ ہیں کہ 2001 کی نسبت پچھلے برس 30فی صد جانی نقصان زیادہ ہوا. پچھلی ایک دہائی کے دوران میں معاشی ترقی صفر کے برابر ہیں .سٹوڈنٹس اب کابل کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں.بلاشبہ امریکا کامقصد افغانستان کے سارے مسائل کو حل کرنانہ تھا لیکن جس طرح آج افغانستان کو چھوڑ رہا ہے یہ بدترین ناکامی ہے” حمیداللہ خٹک