افسانےکانام:- اپنے
مصنف :- ایمن گل زار
“یاوحشت۔اس بجلی کو بھی ابھی جاناتھا”۔اس کاپرسوں کیمسٹری کاپیپر تھاسو وہ بڑے انہماک سے پڑھ رہی تھی,تبھی بجلی جانے پر کراہ کر رہ گئی۔
اس نے بےدلی سے چاچا مستری(مطلب کیمسٹری)کی کتاب سائیڈ پر رکھ دی۔آج توروزہ بھی رکھ لیاتھا۔اوپرسے اس بجلی کی أنکھ مچولی۔تبھی اندر سے امی بھی باہر نکل آئیں اور برآمدے میں رکھی دوسری چارپائی پر لیٹ گئیں۔بھابھی اپنے کمرے میں بیٹھی میاں سے بات کر رہی تھیں۔ان کی شادی کو ابھی چوتھاماہ تھا۔
ایمان فرسٹ ایئر کی طالبہ تھی۔تین دن پہلے ہی پیپر دینے کے لیے ہاسٹل سے گھر لوٹی تھی۔پہلا پرچہ ہی کیمسٹری کا تھا جو اسے زہر سے بھی ذیادہ بری لگتی تھی۔
رمضان کا مہینہ تھا۔شروع کے روزوں میں تو گرمی نے اتنا نہیں ستایا تھا۔البتہ اب گرمی اپنے پورے جوبن پر تھی۔
“بس جلدی سے فرسٹ ایئر کے پیپرز ہوں پھر چند دن کے لیے خالہ آنسہ کےپاس چلی جاؤں گی۔ان سے عید کاجوڑابھی سلوانا ہے۔ایک سوٹ تو بھابھی بھی تیار کر دیں گی”۔وہ ہاتھ والا پنکھا جھلتے ہوئے سوچ رہی تھی۔اسی اثنامیں دروازہ کھلااورشازیہ ممانی اندر داخل ہوئیں۔
“السلام و علیکم ممانی”۔اس نے چہرےپردرآنےوالی ناگواری کو بمشکل چھپاکرسلام کیا۔اسے مغرور اور خودپسند سی ممانی بالکل پسند نہیں تھیں۔ان کے میاں طارق ماموں سعودیہ نوکری کرتے تھے۔ہر ماہ پچاس ہزار آتا لیکن نجانے کہاں جاتا۔ان کے چار بیٹےاورایک بیٹی تھے۔سب سے بڑامدثرجوایمان سے دوسال چھوٹاتھا۔اس کے بعد اریشہ جو ایمان کی بڑی خالہ اور اریشہ کی پھپو سعدیہ نے گود لے رکھی تھی۔پھرسرمد, ادریس اور یوسف۔
“اف یہ بجلی والے۔بجلی تو دیتے نہیں لیکن ہرمہینے بھاری رقم والا بل بھیجناضروریادرہتاہے۔ خدا کی مارپڑے ان ناہجاروں پر”۔انھوں نے سلام کا جواب دینے کی بجائے واپڈاوالوں کو صلواتیں سنائیں۔ایمان نے ٹھٹھک کر ان کے ہاتھ میں موجود موبائل کو دیکھا۔
“یہ کس کا فون ہے ممانی”؟اس نے پوچھا۔
“میراہے۔تمہارے ماموں نے پرسوں بھجوایا تھاابرار بھائی کے ہاتھوں”۔انھوں نے فخرسے ہاتھ لہرایا۔فون اچھاخاصامہنگاتھا۔”ساتھ ہی پیسے بھیجےہیں۔میں نےبولاتھاکہ یوپی ایس لگوانا ہے”۔انھوں نے مزید مطلع کیا۔
“مگرممانی۔ماموں کا کام تومنداچل رہاتھا”۔ایمان نے تاسف سے کہا۔
“یہ افواہ کس دشمن نےاڑائی ہے؟”وہ ٹھٹھامارکرہنسیں۔ایمان نےتاسف سے منہ پھیرا۔ابھی پچھلےہی دنوں اس نے ممانی سے ماموں سے لیپ ٹاپ منگوانے کی فرمائش کی تھی تو ممانی نے کامندا ہونےکارونارویاتھا۔
“میں بھی سوچ رہی تھی کہ طلال سے کہہ کریوپی ایس لگوالوں”۔امی نے بھاوج کو بتایا۔
“ارے نہیں بھئی۔ابھی تم لوگوں پر بہت قرضہ ہے۔اسے اتارو پہلے”۔وہ ہاتھ نچا کے بولیں۔
“السلام و علیکم ممانی”۔اس سے پہلے کہ ایمان کے منہ کچھ سخت سست نکلتا,بھابھی نے باہر نکل کر سلام کیا۔غالبأ ان کے میاں کی ڈیوٹی شروع ہو گئی تھی۔
“وعلیکم السلام۔کہاں تھی اتنی دیرسے؟”انھوں نے بھابھی کو تولتی نظروں سے دیکھا۔بھابھی ان کی تیز نگاہوں سے خائف سی ہوئیں۔
“وہ۔۔۔۔طلال کا فون تھا”۔
“اچھا۔واہ بھئی۔ہم سے تو اتنی شدید گرمی میں اپنےمیاں سے گھنٹہ بھر بات نہیں کی جاسکتی”۔ممانی کے طنز پر امی نے پہلو بدلا جبکہ بھابھی کھسیانی سی ہو کر ہنس دیں۔
“بالکل ممانی۔آپ ایک گھنٹہ کہاں۔بلکہ آپ تو دوتین گھنٹے بات کر لیتی ہیں۔میں پرسوں شام آپ کے ہی ہاں تھی”۔ایمان بے نیازی سے بولی۔ممانی ناگواری سے بڑبڑاکے رہ گئیں کہ ماموں کی لاڈلی کو وہ کچھ سنانا نہیں چاہتی تھیں۔ایمان ان کے نزدیک حددرجہ کی بدتمیز اور منہ پھٹ لڑکی تھی۔امی نے ایمان کو زبردست گھوری سے نوازا جبکہ بھابھی نے بےساختہ در آنے والی مسکراہٹ کو چھپانے کے لیے رخ موڑ لیامبادا ممانی خفا نہ ہو جائیں۔
“خیرمیں یہ بتانے آئی تھی کہ آج افطاری میرے گھر ہے۔زوبی اور ایمان کو وقت پر بھیج دینا”۔وہ بولیں اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔ان کے باہر نکلتے ہی بجلی آگئی۔
“لو جی۔مصیبت ٹلی”۔ایمان نے ہاتھ جھاڑے۔امی نے اسے گھورا لیکن پھر خود ہی مسکرا دیں۔بھابھی نے اس کے سر پر ہلکی سی چپت لگائی۔
*********
ایمان عصر کی اذان سے پہلے ماموں کے گھر آئی توگھر کا پھیلاوہ دیکھ کر چکرا کررہ گئی۔ممانی فون پر اپنی بھتیجی کےساتھ مصروف تھیں۔اریشہ ان دنوں یہیں تھی اور ٹی وی کے آگے بیٹھی پورے انہماک سے ڈرامہ دیکھ رہی تھی۔ایمان نے ضبط سے لب بھینچے۔اریشہ سے کہنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ممانی نے ہمیشہ کی طرح اپنی سست بیٹی کی طرف داری کرتے ہوئے کہنا تھا کہ :
“چند دنوں کے لیے ہی تو آتی ہے میری بچی۔ان دنوں میں بھی کام کرواؤں۔پھپو کے گھر بھی تو کام ہی تو کرتی ہے”۔
“ہاں۔ٹی وی دیکھنے کا کام”۔اس نے جل کر سوچاپھرسب سے پہلے گھر کا پھیلاوہ سمیٹا۔اس کے ہاتھ کا چاٹ اور چٹنی سب کو پسند تھی سو اس نے تیزی سے بنانی شروع کی۔بڑی ممانی فائقہ اور ان کی امی بھی آ گئیں۔ان کی امی کو شازیہ ممانی نے بطور خاص بلوایا تھا۔زوبی بھابھی نے چاٹ کے لیے پیاز کاٹی۔ایمان کی امی شائستہ بیگم نے گوشت کا سالن تیار کیا۔اس دوران شازیہ ممانی طارق ماموں سے ایمو پہ بات کرتی رہیں۔
افطاری میں دس منٹ رہتے تھے جب ایمان نے روزینہ خالہ کی بیٹیوں خدیجہ اور نوشین کے ساتھ مل کر دستر خوان بچھایا۔ابھی تک نسیم خالہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ نہیں آئیں تھیں۔ایمان ہاتھ دھو کر کچن میں آئی جہاں ممانی ادریس اور یوسف کو کلیجی نکال کر دے رہی تھیں۔
“ممانی۔نسیم خالہ اب تک کیوں نہیں آئیں؟”اسے حیرت تھی کہ جب سب “اپنے” مدعو تھے تو وہ کیوں نہیں آ رہیں۔دوسرا ان کی بیٹی زوباریہ سے اس کی بہت بنتی تھی۔
“نہیں۔میں نے انھیں نہیں بلایا”۔
“مگر کیوں ممانی؟”اس نے تحیر سے پوچھا۔
“وہ کون سا ہمارے اپنے ہیں۔میں نے صرف اپنوں کو بلایا ہے”۔وہ بےزاری سے بول کر باہر نکل گئیں۔
نسیم خالہ طارق ماموں کی سگی خالہ ذاد تھیں جبکہ فائقہ ممانی کی امی کا تو طارق ماموں سے ایسا رشتہ نہیں بنتا تھا۔یہ اپنوں کی کونسی کیٹگری تھی۔
“چھوڑو۔مجھے کیا پتا ان معنی مطالب کا”۔اس نے سر جھٹک کر خود کو سوچوں سے آذاد کرانے کی ناکام سی کوشش کی تھی۔
*********
اور یہ بھی اسی ہفتے کی بات تھی۔ماموں سے غلطی سے دو گاڑیوں کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور ماموں پر ڈھائی لاکھ کا جرمانہ آن پڑا۔وہاں کون جاننے والا تھا۔مدد کے لیے گھر فون کھڑکایا۔
ممانی نے بہن, بھائی,نند,جیٹھ۔سب سے ادھار مانگا مگر تین لاکھ کا انتظام ہو پایا۔نیا موبائل بیچ دیا۔سونے کے نام پر صرف ایک لاکٹ تھا اور ایک چوڑی۔باقی سونا ماموں کو باہر بھجوانے میں بک چکا تھا۔ کل ملا کر اب ایک لاکھ چاہیے تھا۔
فائقہ ممانی کی امی ابھی تک یہیں تھیں۔شازیہ ممانی ہمت کر کے ان سے ملنے چلی آئیں۔انھوں نے اپنی مجبوری کا ذکر کر کے ہاتھ جوڑے۔
“میں دے دیتی مگر میرا بڑا بیٹا اشفاق پرسوں ہی مجھ سے پچاس ہزار لے گیا جو مجھے بھینس کو فروخت کر کے حاصل ہوئے تھے”۔ان کی بات پر وہ چپ چاپ اٹھ آئیں۔پھر یاد آیا,وہ اپنے برتن لینے آئیں تھیں۔وہ واپس پلٹیں کہ تبھی فائقہ کی بات پر ٹھٹھک گئیں۔
“اماں۔بھینس تو ایک لاکھ میں بکی تھی۔پچاس ہزار دے دیتیں”۔فائقہ زعفران کا پیمپر بدلتے ہوئے بولیں۔
“ارے چھوڑو۔وہ کون سا ہماری اپنی ہے”۔وہ بے نیازی سے بولیں۔شازیہ اپنے آنسو چھپاتے ہوئے مڑ گئیں۔
**********
ماموں کی پریشانی کا سوچ سوچ کر ایمان کا دل بوجھل ہو رہاتھا۔پیپر بھی صحیح سے نہیں دےپا رہی تھی۔انگلش کے پیپر میں دو چھٹیاں تھیں سو وہ فراغت پا کر زوباریہ کے گھر چلی آئی۔زوباریہ کے چھوٹے بھائی ولی نے چٹکلے سنا کر ماحول کو خوشگوار بنا دیا۔
تبھی ممانی بھی چلی آئیں۔نسیم خالہ نے انھیں دوسرے کمرے میں بلا لیا جو گیٹ کے ساتھ ہی تھا۔
“اچھا۔اب میں چلتی ہوں۔افطاری کی تیاری کرنی ہے”۔عصر کی اذان ہوئی تو ایمان جانے کےلیے اٹھ کھڑی ہوئی۔
“یہ پیسے رکھ لو”۔وہ باہر نکلنے لگی تھی جب نسیم خالہ کو کہتے سنا۔وہ ٹھٹک کے رکی۔
“یہ۔۔۔”۔ممانی گنگ سی رہ گئیں۔
“یعقوب(نسیم خالہ کے شوہر( نے نہر والی زمین بیچی تھی زوباریہ کے جہیز کے لیے۔جہیز پھر بن جائےگا۔ لیکن میرے بھائی کو ابھی ذیادہ ضرورت ہے پیسوں کی۔اللہ کرے اس کا کام بنا رہے”۔نسیم خالہ کے لہجے میں خلوص کی چاشنی تھی۔ایمان دزدیدہ سی مسکرا دی۔
“بہت بہت شکریہ نسیم۔تم نے ثابت کر دیا کہ اپنے ہی اپنوں کے کام آتے ہیں”۔شازیہ ممانی کی آواز بھرا گئی۔
ایمان نے گم صم قدم گھر کی جانب بڑھائے۔
لیکن چلتے چلتے اس کا ذہن اسی گتھی کو سلجھانے میں مصروف تھا کہ۔۔۔۔۔
“آخر “اپنے” کہتے کس کو ہیں؟؟؟؟؟
&ختم شد