ٹیری فاکس ۲۸ جولائی ۱۹۵۸ کو ونی پیگ کینڈا میں پیدا ہوا۔ ٹیری سکول کے بہترین کھلاڑی اور رنر تھے، ٹیری کو بچپن سے ہی ہارنا پسند نہی تھا وہ تب تک مسلسل کوشش کرتا رہتا جب تک اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نا کر لیتا۔ مارچ ۱۹۷۷ کو ٹیری کی ایک ٹانگ میں کینسر کی تشخیص ہوئی جسے بعد میں کاٹ دیا گیا، لیکن ڈاکٹروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس کے بعد بھی زندگی کی امید صرف ۵۰ فیصد ہی ہے۔
کینسر کے علاج کے دوران ہسپتال میں اس نے محسوس کیا کہ اس مرض پر بہت کم توجہ دی جا رہی ہے جب کہ ضرورت بہت ذیادہ ہے۔ ٹیری کی آنکھوں کے سامنے کینسر کے مریض آتے جو صرف نام کے زندہ تھے ان کے چہرے مرجھائے ہوئے ہوتے جو کبھی ہنستے بستے تھے اب ان پر مایوسی کے اثرات ظاہر ہو رہے تھے اور وہ جینے کی امیدیں چھوڑ چکے تھے۔ اس وقت ٹیری نے فیصلہ کیا کہ وہ کینسر کی ریسرچ کا ایک جدید سینٹر بنائے گا۔اکتوبر ۱۹۷۹ کو ٹیری نے کینڈا کی کینسر سوسائٹی کے نام ایک خط لکھا اور اس میں اپنے مقصد کا علان کیااور مالی مدد کی اپیل کی۔ اس نے کہا وہ اپنی معذوری کو فتح میں بدل دے گا اور ریس مکمل کرے گا چاہے یہ اسے رینگ کر کرنا پڑے۔ ٹیری نے کہا وہ کینسر کے علاج کے بعد زندہ رہنے پر اپنے رب کا شکر گذار رہے گا اور میں اپنے آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں زندہ رہنے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کی جدوجہد کرتا رہوں گا۔ ایک دوسرا خط متعدد کارپوریشنوں کے نام بھیجا جس میں چندے کی اپیل کی۔
کینسر کی ریسرچ کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کی غرض سے۱۹۸۰ میں ٹیری نے کراس کنٹری میراتھن کا آغاز کیا۔ اسے امید تھی کہ وہ کینڈا کے ۲۴ ملین افراد سے ایک ڈالر ضرور اکٹھا کر لے گا۔ ٹیری نے پیسے اکٹھا کرنے کی غرض سے سیاستدانوں، تاجروں اور کھلاڑیوں سے متعدد ملاقاتیں بھی کیں۔ میراتھن کا آغاز ۱۲ اپریل ۱۹۸۰ کو ہوا۔ ابتدائی دنوں میں خراب موسم کی وجہ سے شدید مشکلات ہوئیں، لوگوں نے بھی اس کے ساتھ خاص تعاون نہی کیا لیکن رفتہ رفتہ ہر گزرتے دن کے ساتھ لوگ بڑھتے گئے اور پھر پورے کینڈا نے ٹیری کاساتھ دینا شروع کر دیا۔ لوگ راستوں میں کھڑے ہو کر انتظار کرتے اور بیشمار چندہ جمع کرواتے۔ جیسے جیسے شہرت بڑھتی گئی ریس کے راستوں میں استقبال کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔
یکم ستمبر کو ریس کے دوران ٹیری کو سینے میں شدید درد ہوا، اسے ہسپتال پہنچایا گیا وہاں ڈاکڑوں نے انکشاف کیا کہ کینسر ٹانگ سے پھیپھڑوں تک پہنچ گیا ہے۔ اب اس کے پاس زندگی کےکچھ ہی مہینے باقی ہیں۔ ڈاکڑوں نے میراتھن چھوڑنے کا کہا لیکن ٹیری نے انکار کر دیا اس نے کہا اگر میں چل نا سکا تو رینگ لوں گا لیکن میں اپنے مقصد سے پیچھے نہی ہٹ سکتا۔ اس کے بعد ٹیری نے کیموتھراپی کے متعدد علاج کروائے لیکن یہ بیماری بڑھتی ہی گئی۔ جب ٹیری کی حالت بہت ذیادہ خراب ہو گئی تو کینڈا کے لوگوں نے دعائیں کرنا شروع کر دی اور پوپ جان پال دوم نے ایک ٹیلیگرام بھیجا کہ وہ ٹیری کےلیے دعا مانگ رہے ہیں، لیکن ۲۸ جون ۱۹۸۱ کو ٹیری فاکس اپنی ۲۳ سالگرہ سے ایک ماہ قبل اس دنیا سے کوچ کر گیا۔
ٹیری فاکس کی موت پر کینڈا کی حکوت نے پورے ملک میں جھنڈوں کو سرنگوں کردیا جو کہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ ٹیری خود تو اس دنیا سے چلا گیا لیکن کینسر کے مریضوں کے لیے ۵۵ ارب اکھٹے کر کے گیا۔ یہاں سوچنے کی ضرورت ہے اتنی رقم اگر ٹیری اپنے لیے اکٹھا کرنا چاہتا تو شاید کئی سال لگتے لیکن اس نے اپنی زات کو بھول کر جب انسانیت کا سوچا تو صرف نو ماہ میں ہی یہ سب ممکن ہو گیا جس کی وجہ سے ہزاروں زندگیاں بچ گئی ہوں گی۔ ٹیری جب اپنے لیے زندہ تھا تو اسے کوئی نہی جانتا تھا لیکن جب نو ماہ انسانیت کے جیا تو پوری دینا کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے جی گیا۔
Also Read:
https://newzflex.com/27217
آج ہمارے ملک اور قوم کو بھی ٹیری جیسے انسان اور ویسی ہی سوچ کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں بھی انسان کبھی دوا نا ملنے سے کبھی ڈاکٹر نا ملنے سے اور کبھی ہسپتال نا پہنچ پانے سے مر جاتے ہیں۔ ہمیں بھی ضرورت ایسی ہی سوچ اپنانے کی ہے، کوئی بھی نیکی چھوٹی نہیں ہوتی جب ہم خود سے آغاز کریں گے تو یہ دنیا خود بخود بدلتی جاے گی۔ ہمارے ملک کی مٹی بھی ہمارے عملی قدموں کی منتظر ہے۔ جو لوگ اپنی خوشیاں قربان کر کے دوسروں کے لیے جیتےہیں وہ ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں ٹیری فاکس کی طرح زندہ رہتے ہیں۔
(مصنف کاشف علی۔ کراچی)
فاکس کی طرح بڑی سوچ اور عظیم مقاصد کا خواب دیکھنے والوں کی اس دنیاکو بہت ضرورت ہے۔
TERY was a great man.
ٹیری فاکسس نے بیماروں کےلیے بہت اچھا کام کیا۔