امام علی علیہ السلام کی خدمت میں ایک شخص آیا اور دست ادب جوڑ کے عرض کرنے لگا یا علی علیہ السلام میں ہمیشہ اداس رہتا ہوں میں اپنی تنہائی اور اداسی کو ختم نہیں کر پاتا آخر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے اور یہ اداسی ختم کیسے ہو گی ۔ یہ کہنا تھا تو امام علیہ السلام نے (فرمان ) فرمایا اے (انسان ) شخص جس انسان کی روح کمزور ہوتی ہے وہ انسان مایوس اور اداس رہتا ہے تو اس نے کہا یا علی میری روح کمزور ہے تو اسے طاقتور کیسے بناؤں یہ کمزور کیسے ہوئی بات جب یہاں پہنچی تو ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا اے شخص انسان کی ایک غلطی جو بار بار دهراتا رہتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنی خوشی دوسروں میں تلاش کرتا ہے اچھے کپڑے پہنتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کی تعریف ہو(کوئی اچھا لگے تو تعریف کی جائے ) لیکن جب( اس انسان کی ) تعریف نہیں ہوتی تو اسے وہ خوشی نہیں ملتی-(جب انسان کسی سے ) پیار کرتا ہے اور یہ امید کرتا ؛ہے کہ بدلے۔ میں مجھے وہی پیار ملے ۔ جب پیار نہیں ملتا تو اسے وہ خوشی نہیں ملتی پیار کرتا ہے اور یہ امید رکھتا ہے کے بدلے میں مجھے وہی پیار ملے پیار نہیں ملتا- تو اسے وہ خوشی نہیں ملتی ہمدردی . رحم , فکر کرتا ہے یہاں تک کہ اپنے بچوں کی اچھی سے پرورش کرتا ہے ہر چیز میں (سے ) اس کی امید شامل ہوتی ہے کہ بدلے میں بھی مجھے وہی چیزیں ملیں گی لیکن جب وہ تمام چیزیں میسر نہیں ہوتی تو انسان اندر سے ٹوٹنے لگتا ہے ۔
اداس رہنے لگتا ہے اور یوں دن با دن اس کی روح کمزور ہوتی جاتی ہے اے شخص یاد رکھنا اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری یہ روح اندر سے ۔تاقتور ہو مضبوط ہو تو پھر اپنی خوشی دنیا کی چیزوں میں تلاش نہ کرو۔ بلکہ اپنے اندر میں تلاش کرو۔ کوئی تم پر تنقید کرے اور تمہاری تذلیل کرے کوئی نیکی کا بدلا تمہیں شر سے دے یا کوئی تمہاری تعریف اگر نہ بھی کرے اگر تمہارا ضمیر مطمئن ہے تو تم ان تمام چیزوں کو در گزر کر کے یہ سوچ لو کے اگر تم خوش ہو اور تم صحیح ہو تو کیا فرق پڑتا ہے ۔امید صرف اپنے آپ سے اور اپنے اللہ سے جوڑو یاد رکھنا بہادر وہ نہیں جو تلوار لے کے ہزاروں انسانوں کو چیز دے بلکے بھادو وہ ہے جس کے وجود میں درگزر کرنے کی طاقت ہو ۔