اسلام وعلیکم معزز خواتین و حضرات
اس آرٹیکل کا لقب در اصل سورۃ نجم کی 24 نمبر آیت ہے، وہ ہی دیا گیا ہے. جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ “انسان کی ساری خواہشات پوری ہو یہ ضروری تو نہیں”،اور اس کا کچھ تبصرہ سورۃ یونس کی آیت نمبر 10 میں بھی ے کہ آخر ایسا کیوں کہا گیا کہ جس کی انسان تمنا کرے تو ضروری نہیں اسے وہ مل جائے. پہلے پہل حضرت آدم علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے تو تمام انسان توحید کے دین پے ہی چلتے تھے،بعد میں کچھ لوگوں نے الگ الگ مذہب ایجاد کر لیے. اللّٰهَ سبحان و تعالٰی اگر چاہتے تو دنیا میں ان کے اختلافات کے فیصلے کر سکتے تھے لیکن چونکہ اللّٰهَ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انسانوں کو دنیا کے امتحانات کے لیے پیدا کیا گیا ہے. اللّٰهَ کی طرف سے پیغمبر بھیجے گئے جو حق اور سچ کے راستے کیے بارے میں بتائیں گے اور باتوں کو واضع دلیل سے پیش کریں گے،پھر وہ انسان جو راستہ اختیار کرے اس مرضی ہے لیکن اللہ سبحان و تعالٰی دنیا میں اس کا فیصلہ نہیں کرتے.تو جیسا کہ سورۃ نجم کی آیت ہے تو یہاں مشرک لوگ اپنے خداؤں کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ یہ اللّٰهَ سے ہماری سفارش کرینگے تو اللّٰهَ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمھاری خواہش، تمھاری تمنا ضرور ہوگی لیکن انسان کو ہر وہ چیز نہیں ملا کرتی جس کی وہ تمنا کرے.
انسان اپنی خواہشات کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا چاہے کچھ بھی کر لے. انسان کے اندر لا حاصل خواہشات ہیں جیسے ہمیں پہلے اچھی تعلیم چاہیے، وہ پوری ہوگئی تو اچھی نوکری کی تلاش میں لگ جاتے ہہیں، اگر وہ بھی مل جائے تو اچھا گھر چاہیے ہوتا ہے ہماری یہ لا حاصل تمنائیں، پھر ایسا کرتے کرتے ہماری زندگی، زندگی نہیں خواہشات کا انبار بن جاتی ہے.
لیکن قرآن کہتا ہے “کہ ضروری نہیں کہ انسان کی ہر خواہش پوری ہو” . اگر ایسا ہوگیا اور جو ہم نے چاہا وہ مل گیا پھر طلب کس چیز کی رہ جائیگی؟ جو ہم چاہیں اور وہ مل جائے تو پتا کیسے چلے گا کہ اللہ سبحان و تعالٰی کو راضی کیسے کیا جاتا ہے؟ رو رو کر دعائیں کیسی مانگی جاتی ہیں؟ اور اپنی پسندیدہ چیزوں کو پانے کے لئے اللہ کو منایا کیسے جاتا ہے. پھر جب وہ چیزیں مل جائیں تو شکر کیسے کریں اور نا ملے تو صبر کیسے کریں. خدا رحمان اپنے بندوں سے بے حد محبت کرتے ہیں یہ بدنصیبی ہماری ے کہ ہم نے خدا کو چھوڑ کر باقی سب مانگ لیا خدا سے ہی. انسان کی خواہشات کی تو کوئی انتہا ہی نہیں ہے مرنے کہ بعد دو گز کفن کے ساتھ دو گز زمین بھی چاہیئے ہوتی ہے!
میری ضرورتیں، میری تمنائیں، میری خواہشیں، مجھے کیا چاہیے، مجھے کیا پسند.. انسان اس “میں” میں سے نکل نہیں پاتا، بھلے شاہ نے بھی کیا خوب لکھا ہے.!
نہ کر بندیا میری تیری
نہ اے تیری نہ اے میری
چار دناں دا اے میلہ دنیا
فیر مٹی دی بن گئ ڈھیری
ہم نے اللہ سے ہر چیز مانگ لی ہوتی ہے بس کبھی اللہ کو نہیں مانگا. کبھی ہم اس “میں” سے نکل کر یہ نہیں کہتے کہ یا رب جو تیری رضا اس میں ہی میں راضی. لیکن افسوس ہمارے خواہشات کی تحریر بہت بڑی ہے اور وہ ہمارے اور ہمارے رب العزت کے درمیان آگئی ہے اور ہمیں اللہ کے قریب جانے نہیں دیتی. جس دن ہم انسان اس دیوار کو ختم کر دینگے اپنی تمناؤں کو چھوڑ کر رب العزت کی رضا میں راضی ہوجائے گے تب ہمیں یہ احساس بھی ہوجائے گا کہ سکون اپنی خواہشات پوری ہو جانے میں نہیں بلکہ رب کی رضا میں راضی ہونے میں ہے.
از قلم : پرھ رشید