Skip to content

مسجد میں ‘رقص ابلیس’ کا شرمناک واقعہ

مسجد میں ‘رقص ابلیس’ کا شرمناک واقعہ

عبدالقیوم فہمید

حال ہی میں فلسطین کے مشرقی بیت المقدس میں ایک تاریخی مسجد ‘مسجد موسیٰ’ جسے ‘مقام موسیٰ’ بھی کہا جاتا ہے میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ایک گروپ نے ایک تفریحی پارٹی کا انعقاد کیا۔ ویسے تو مسجد میں جہاں صرف عبادت کی گنجائش ہے کسی بھی ثقافتی نوعیت کی پارٹی کے انعقاد کے بارے میں علما سے رائے لینی چاہیے تاہم مسجد موسیٰ میں جو کچھ ہوا اس نے اہل فلسطین میں غم وغصے کی لہر دوڑا دی۔

مسجد موسیٰ میں اس نام نہاد تقریب کے دوران مخلوط گروپ نے شراب نوشی کی، ہلڑ بازی کا کھلے عام مظاہرہ کیا اور اس کے بعد رقص شروع کردیا گیا۔ رقص کے ساتھ مسجد میں بینڈ باجوں کے ساتھ رقص ابلیس کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر براہ راست شیئر بھی کیا گیا۔جیسے ہی اس شرمناک حرکت کولائیو دکھایا گیا تو اس پرفلسطینی عوام میں شدید غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔ جو لوگ مسجد کے قریب تھےاور انہیں اس کا علم ہوا تو بھاگ کر مسجد موسیٰ‌میں پہنچے اور مخلوط پارٹی منعقد کرنے والے دین بیزارعناصر کووہاں سے باہر نکالا۔دوسری طرف اس شرمناک واقعے پر فلسطینی اتھارٹی کی وزارت مذہبی امور اور وزارت سیاحت کے درمیان سخت اختلافات سامنے آئے ہیں۔ دونوں وزارتوں نے مسجد کی بے حرمتی اور اس میں رقص کے شرمناک واقعے پر ایک دوسرے پر الزام تراشی کی گئی ہے۔ وزارت سیاحت کا کہنا ہے کہ اس پارٹی کے انعقاد کی اجازت وزارت مذہبی امور کی طرف سےدی گئی تھی تاہم وزارت مذہبی امور کا قلم دان چونکہ فلسطینی وزیراعظم کے پاس ہے، اس لیے انہوں نے اس کی تحقیقات کا حکم دینے کےساتھ کہا ہےکہ کسی شخص کو مسجد میں ایسی شرمناک حرکت کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

فلسطینی اتھارٹی کے چیف جسٹس نے بھی اس مجرمانہ واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس واقعے کی اعلیٰ سطح پر چھان بین کا فیصلہ کیا ہے۔فلسطین میں‌یہودی آباد کاروں کے ہاتھوں مقدس مقامات کی بے حرمتی کے واقعات تو روز کا معمول ہے مگر فلسطینیوں کی طرف سے اپنے مقدس مقامات کی بے حرمتی انتہائی شرمناک ہے۔ فلسطین کی ایک مسجد میں پیش آنے والے اس واقعے کی مسلم دنیا میں بھی مذمت کی جا رہی ہے۔ فلسطین کے سماجی اور مذہبی حلقوں کی طرف سے بھی اس واقعے کو فلسطینی قوم کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش قرار دیا ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس نام نہاد ثقافتی تقریب کے انعقاد کے بارے میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس کے پیچھے اسرائیل کے ساتھ بعض عرب ملکوں کے تعلقات کے قیام کے اثرات ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *