حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ایک چرواہے کی اپنے رب سے گفتگو
ایک بار کا ذکر ہےکہ حضرت موسیٰ ؑ کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ آپ نےایک چرداہے کوراستہ میں دیکھاوہ چرواہا اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے اپنے حال میں مست اللہ تعالیٰ سےیوں گفتگو کررہاتھااورکہہ رہا تھا:
اےمیرےاللہ ؟تو کہاں ہے؟ تومیرے پاس آتاکہ میں تیرا نوکربنوں تیرےجوتے سی دوں ،تیرےسرمیں کنگھی کروں تومیرے پاس آ میں تیری خدمتیں کروں تیرے کپڑے سیوں تیرے کپڑوں کو دھووٗں تیرے سرسے جوئیں نکالوں تجھےبکریوں کادودھ پلاوٗں اگرتو بیمار ہوجائے تومیں تیرا غم خواربنوں ، تیرے پیارے پیارے ہاتھوں کوچوموں تیرے نازک پاوٗں کودباوٗں جس سونے کاوقت آئےتوتیرا بسترصاف کروں ۔۔ اے اللہ ! تجھ پر میری جان قربان میری ساری اولاد اورمیراساراگھربارتجھ پرقربان ، اگر مجھے تیرے گھر کا پتہ مل جائے توں میں ہر روز صبح و شام تیرے لئے اور دودھ لے کر آوٗں تیرے لئے پنیر بھی لاوٗں اور روغنی روٹیاں بھی لاوٗں۔۔
غرض کہ وہ سادہ لوح چرواہا اسی طرح باتیں کہہ رہا تھا اور اپنے حال میں مست ہوکرآہ وزاری کررہاتھا۔ حضرت موسیٰؑ نے اس کی یہ باتیں سنیں تو فرمایا: اے شخص !تو کس سے مخاطب ہے؟ چرواہےنےکہا، میں اس ذات باری تعالیٰ سےہم کلام ہوں جس نےہمیں پیداکیاہےیہ زمین اورآسمان جس کےپیداکرنےسے ظاہرہواہےمیں اپنےرب سے مخاطب ہوں،حضرت موسیٰ ؑ نےیہ سن کرفرمایا:ارےبےوقوف توکہیں پاگل تونہیں ہوگیاتیری اس گفتگو سے کفروالحاد پھیلےگا اوردین میں رخنہ پیدا ہوگا۔ کیوں کہ تیری یہ باتیں اللہ تعالیٰ کےبارےمیں بلکل کفریہ ہیں۔ کیاتو نہیں جانتاکہ اللہ تعالیٰ اس طرح کی خدمت سےبےنیازہے، اےشخص! تواپنی ان باتوں سے توبہ کراوراللہ تعالیٰ سےمعافی مانگ۔ چرواہا حضرت موسیٰ ؑ کی ڈانٹ ڈپٹ سن کربہت ڈرا اوراس نےکہا :
اےموسیٰ ! تم نےمیرا منہ سی دیاہےاورشرمندگی سےمیری جان جلا دی۔ ہائے افسوس کہ میں نےانجانے میں کیسی باتیں کہہ دیں لیکن میں تو اللہ تعالیٰ سےمحبت کااظہار کررہاتھامجھے کیامعلوم تھاکہ اللہ تعالیٰ ان باتوں سےبےنیازہے۔
چرواہے کےدل پراللہ تعالیٰ کااس قدر خوف طاری ہواکہ اس نےاپنے کپڑےپھاڑےاورروتاہواآہ وزاری کرتےہوئےجنگل کی طرف دوڑگیا۔۔جب چرواہاجنگل کی طرف روتاہوابھاگ گیا توعین اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ ؑ پروحی نازل ہوئی، اے موسیٰؑ! تونے ہمارے بندے کوہم سےجداکردیا وہ چروہاتو میرے عشق میں مبتلاہوکرایسی باتیں کررہاتھامیں بھی محبت سے اس کی باتیں سن رہاتھا اسے مجھ سےسچی محبت تھی وہ اپنی محبت کا اظہارکرہاتھابےشک میں ان باتوں سے پاک ہوں جووہ کہہ رہاتھامگرچرواہا تویہ علم نہیں رکھتاتھا اس کادل میری محبت سے سرشارتھا اس کی نیت اچھی تھی اس کےدل میں میرےلئےعقیدت ومحبت تھی ۔اےموسیٰؑ ! میں نےتجھے اس لئے مبعوث فرمایاہےکہ تومیرے بندوں کومجھ سےملا ئے اس لئے مبعوث نہیں فرمایا کہ میرے بندوں کوتو مجھ سےجدا کرے جاوٗ اور میرے بندے کوو جنگل سے واپس لےکرآوٗ۔
جب حضرت موسیٰؑ نےاللہ تعالیٰ سےیہ ناراضگی سنی تواسی وقت جنگل میں چرواہے کےپیچھے بھاگے وہ چرواہا دیوانہ وار سراٹھائےبھاگتاہوا نظرآیا ، حضرت موسیٰ نےاسے جالیا اورفرمایا، تجھےاسی طریقہ پر مناجات کی اجازت مل گئی ہے جو بھی محبت بھرے سے الفاظ تیری زبان پر آئیں توکہتا رہ اس لئے تیرا مرتبہ اللہ تعالیٰ کےنزدیک بہت بلند ہے۔
نتیجہ: اللہ تعالیٰ شکلوں کونہیں بلکہ وہ نیتوں اور اعمال کودیکھتاہے۔
(ماخوذ ازحکایات رومی)