دنیا میں جتنے بھی آسمانی،اور الہامی مذاھب ہیں ان تمام مذاھب میں انقلابی محرکات ضرور ہیں۔جہاں تک وحدت الہ کا معاملہ ہے جن پر تمام مذاھب کی بنیاد ہے یہ نکتہ ایک انقلابی نکتہ ہے۔کیونکہ ایک الہ کو ماننا دلی انقلاب کا سبب بنتا ہے جو ہمیں مذھبی جنون کی صورت میں نظر آتا ہے۔تمام ادیان کسی نہ کسی درجے میں دنیا کے اصول و ضوابط کا تعین کرتے ہیں اور ان پر عمل پیرا ہونے کا درس دیتے ہیں۔ہماری یہ دنیا اور زمین جس پر ہم بستے ہیں اس کو سنوارنا اور یہاں کے نشیب وفراز میں راہنمائی کرنا مذھب کا اولین مقصد ہوا کرتا ہے۔چونکہ اب تمام مذاھب منسوخ ہو چکے ہیں اس لیے اب ان اصولوں کا تعین اسلام کرتا ہے اور اس نشیب وفراز سے نکلنے کا راستہ بھی اسلام ہی دیتا ہے۔کیونکہ اسلام ایک انقلابی مذھب ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر ہماری راہنمائی کرتا ہے۔اب وہ انقلابی محرکات کیا ہیں جس کو بنیاد بنا کر ہم راستوں کا تعین کر سکیں۔
۔۔۔1۔۔۔معاشرتی زندگی کے اصول۔۔۔۔۔
سب سے پہلے انقلاب میں ہماری معاشرت آتی ہے ،چند افراد کے ملنے سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور پھر ان افراد کے کردار سے معاشرے میں تبدیلی آنا شروع ہوتی ہے۔جیسا کردار ہوتا ہے اسی مناسبت سے انقلاب بھی معاشرے کا مقدر ہوتا ہے۔اگر ہم واقعی معاشرے میں انقلاب کے خواہاں ہیں تو معاشرت میں بڑی تبدیلی کی ضرورت ہوگی اور اسلام جس انداز سے ان اجزاء پر بحث کرتا ہے دوسرے مذاھب ان سے قاصر ہیں۔خدمت خلق،معاملات،اخلاق،حقوق کی ادائیگی،وعدے کی پاسداری،اور مساوات وہ بنیادی اجزاء ہیں جن سے ہماری معاشرت میں انقلاب آسکتا ہے۔اور اسلام نے یہ چیزیں باالتفصیل ہمیں بتائی ہے۔
۔۔۔2۔۔۔ معاشی زندگی کے اصول۔۔۔۔۔
انقلاب کے لیے دوسرا اہم قدم معیشت کی طرف ہوگا۔دیگر مذاھب سے ہٹ کر اسلام اکانومی پر بڑا زور بھی دیتا ہے اور معیشت کے اصول بھی سکھاتا ہے۔سود،ڈھاکہ،چوری،رشوت،ناحق کسی کا مال کھانے کو حرام کر دیا تاکہ دولتمند کاتکبرخاک میں مل جائے اور ضرورت مند کی ضرورت اچھی طریقے سے پوری ہو سکے۔وراثت کا عظیم نظام قائم کیا تاکہ دولت گردش میں رہے اور غریب کا استحصال نہ ہو۔جس طرح مال جمع کرنے کے لیے اصول بنائے اسی طرح خرچ کرنے میں بھی مصارف دکھائے تاکہ حق بھی ادا ہو اور معیشت کی تقسیم بھی جاری و ساری ہو۔زکوة،صدقہ،خیرات،اور گھر والوں پر خرچ کو بھی نیکی کا درجہ دیا گیا ہے۔سودی بنکاری،جواری،الات موسیقی پر خرچ،اورنا جائز کاموں پر دولت کو خرچ کرنا گناہ قرار دیا گیاہے۔یہ وہ بہترین اصول ہیں جس سے معیشت میں زبردست انقلاب آسکتا ہے۔سرمادارانہ نظام اور سیکولرنظام معیشت کی حوصلہ شکنی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
۔۔۔3۔۔۔ سیاسی زندگی کے اصول۔۔۔۔
انقلاب کے لیے کسی ملک اور ریاست ریڑ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے تاکہ احکامات کا نفاذاور جزا سزا کا بہترین انتظام ہو سکے ورنہ انقلاب کابے معنی ہوجاتا ہے۔اسلام ایک ایسا ملک ،اور ایسی ریاست چاہتا ہے جہاں اللہ کے احکامات کو نافذ کیا جا سکے اور ایک بادشاہ اللہ کا نائب ہو کر ملکی انصرام کو سنبھال سکے۔سیاست کا مطلب ہی یہ ہے کہ نگرانی اور حفاظت کی جائے اب یہ حفاظت ملک کی سطح پر ہو یا کسی علاقے کی سطح پر اسلام امن،خوشحالی،آسانی،اور سہولیات کی فراہمی کا پیغام دیتا ہے۔آپﷺ نے جب مدینہ مبورہ میں ریاست کی بنیاد رکھی تو انہی باتوں نے حقیقی انقلاب کی صورت اختیار کی تھی۔
ملک میں امن و امان کی فضاء قائم کرنا ،لوگوں میں شعور بیدار کرنا،اور ان کی مال ،جان،اور عزت کو تحفظ فراہم کرنا ایک ریاست کی ذمہ داری ہوتی۔کپڑا ،مکان،اور روٹی انسان کی بنیادی ضروریات ہیں ان کا حصول ممکن اور بہتر بنانا اور بلا تفریق ہر کسی کو دینا حاکم کی ذمہ داری ہے۔جب تک کسی ملک کی سیاست کی بنیاد مال ،جان،اوت عزت کی تحفظ پر نہ رکھی جائے اس وقت تک انقلاب ممکن نہیں۔ریاست مدینہ انقلاب اور سیاسی زندگی کی بہترین مثال ہے۔اور سب سے زیادہ اسلام نےاس کی حصلہ افزائی کی ہے۔
۔۔۔4۔۔۔سائنسی زندگی کے اصول۔۔۔
انقلاب کی اہم پہلو وہ سائنسی زندگی میں انقلاب کا آنا ہے۔جہاں تک سائنس تجربات کا نچوڑ ہے لیکن اس ترقی یافتہ زندگی کی اہم ضرورت بھی۔جب تک ہم سائنس میں غیروں سے آگے نہیں بڑھتے ہم انقلاب کی جانب قدم نہیں اٹھا سکتے۔قرآن مجید مین ارشاد باری ہے”ترجمہ۔۔پس تم اپنی بساط کے مطابق ان ان کافروں کے لیےقوت حاصل کرو”اس آیت میں بڑے خوبصورت پرایے میں بات سمجھائی گئی ہے کہ جتنا ممکن ہو اتنی تو کوشش کرو باقی اللہ پر چھوڑو۔اور پھر یہ قوت کسی بھی چیز میں ہو سکتی ہے تعلیم،اسلحہ،سائنس،ٹکنالوجی،اور قیامت تک آنے والے جدید سسٹم کا علم کچھ بھی ہو اس میں قوت اور کمال حاصل کرنا اسلام کا منشاء ہے ۔اسی طرح سائنسی زندگی میں زبردست انقلاب کا ظہور ممکن ہے۔
یہی اصول اور یہی باتیں، اسلام کا حکم اور انقلاب کے لیے بنیادی حیثیت کےحامل ہیں۔
اسلامی انقلاب کی بنیاد انہی باتوں پر رکھی گئی ہے اور قرآن نے ہماری راہنمائی اس جانب کی ہے۔
شاہ حسین سواتی