تاریخ پر تاریخ

In ادب
January 04, 2021

دلہن والے تاریخ پر تاریخ دیئے جا رہے ہیں۔جب کہ دلہے والے بظاہر تو با ضد ہیں کہ اس نیک کام میں جلدی کریں مگر اندر سے وہ بھی سہمے ہوئے ہیں کہ کہیں تیسرے فریق سے بات پکی نہ ہو جائے۔تیسرا فریق حسب سابق حسب معمول خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہا ہے۔مولانا صاحب دلہن والوں کی طرف سے ہیں اور دولہے والوں کو رخصت کرنے کے لیے بےتاب بیٹھے ہیں۔مگر دلہن والے پرامید ہیں کہ شاید تیسرے فریق سے بات پکی ہو جائے اور رخصتی کی نوبت ہی نہ آئے۔
دلہن والے رخصتی کی پہلے ہی کئی تاریخیں دے چکے ہیں مگر عین تاریخ والے دن موسمی حالات اور ملکی حالات کا بہانہ بنا کر اور تاریخ دے دیتے ہیں۔اب کی بار دلہن والوں نے اکتیس دسمبر کی تاریخ دی تھی۔مگر اکتیس دسمبر سے پہلے ہی تاریخ میں ایک ماہ کی توسیع کر دی گئی۔سننے میں آیا ہے کہ تیسرے فریق نے بھی اپنے قاصد بھیجنا شروع کر دیئے ہیں جو دلہن والوں اور مولانا صاحب سے ملاقات کر چکے ہیں۔دلہن والے تو رضامندی ظاہر کر رہے ہیں مگر مولانا صاحب ابھی تک رضامند نہیں۔عنقریب بھیجے گئے قاصد شاید دلہے والوں سے بھی ملاقات کریں۔
دولہن والوں کے رشتہ دار بہت زیادہ ہیں اور ان میں سے کوئی نہ کوئی ہر وقت ناراض رہتا ہے۔ان دنوں بھی کچھ رشتہ دار ناراض ہیں۔ناراضی کی وجہ یہی ہے کہ ان رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ اس خوشی میں لندن میں بیٹھے سب رشتہ دار شرکت کریں۔مگر لندن والے شرکت نہیں کر سکتے کیونکہ خوشی چاہے جتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو ان کے دکھوں سے ذیادہ نہیں ہو سکتی۔
اگر اس طرح ناراضگیوں سے معاملات آگے بڑھتے رہے تو رخصتی تو دور رخصتی کی تاریخ ہی فکس نہیں ہو پائے گی۔تاریخ طے کرنے کے لیے مولانا صاحب کو ہی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور دلہن والوں کے رشتہ داروں کو ایک بار پھر اکٹھا کرنا ہوگا۔اگر مولانا صاحب نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو تیسرا فریق دلہن کے رشتہ داروں اور دلہے والوں کو دعوت دے کر اپنا کام کر جائے گا ۔یوں مولانا صاحب اور لندن میں بیٹھے سب رشتہ دار ایک بار پھر تنہا رہ جائیں گے۔