سعادت حسن منٹو کی 66ویں برسی اور موجودہ حالات

In ادب
January 19, 2021

اٹھارہ جنوری کا دن اردو ادب کے مایہ ناز ادیب سعادت حسن منٹو کی 66ویں برسی کا دن ہے 18 جنوری 1955 کو ہی منٹو اس دار فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

منٹو ایک عہد ساز شخصیت ہیں اور اردو ادب ان کے بغیر نامکمل ہے ان کاجنم11 مئی 1912 کو سامرالا ضلع لدھیانہ پنجاب میں ہوا انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔منٹو ادیب ،ڈرامہ نگار، سکرین رائٹر افسانہ نگار اور سکرپٹ رائٹر تھے بمبئی فلم انڈسٹری میں ان کی لکھی کئی فلمیں ریلیز ہوئیں وہ ریڈیو سے بھی منسلک رہے تقسیم ہند کے وقت وہ بمبئی میں شہرت کی بلندیوں پر تھے اور پھر ایک سال تک بھارتی شہری رہے اور 1948 میں پاکستان آگئے۔کچھ میگزین کے لیے بھی لکھتے رہے مگر ان کی وجہ شہرت ان کے بے باک افسانے ہیں اور آج بھی ان کے افسانے موجودہ حالات کی عکاسی کرتے ہیں ۔ منٹو کے افسانے جن میں ،نیا قانون ،لائسنس،کھول دو،ٹھنڈا گوشت،ٹوبہ ٹیک سنگھ اور کالی شلوار ہمارے معاشرے کی منافقت ،بے حسی اور بے رحمی کی عکاسی کرتے ہیں۔

سعادت حسن منٹو ترقی پسند فکر کے حامی تھے اور بذریعہ قلم انہوں نے معاشرے کی بدصورتی اور گھٹیا سوچ کو بے نقاب کیا منٹو جیسے لوگ جہاں حکمران طبقہ کے لیے ایک درد سر ہوتے ہیں وہیں قدامت پرست لوگ بھی ان کی فکر کے خلاف کھڑے نظر آتے ہیں منٹو جب کہتا ہے کہ ہمارا معاشرہ عورت کو کوٹھا چلانے کی اجازت تو دیتا ہے مگر تانگہ چلانے کی اجازت نہیں دیتا تو کچھ کم عقل لوگ کہتے ہیں منٹو نفسیاتی مریض ہے اور فحاشی پھیلاتا ہے مگر وہ معاشرہ مکمل طور پر نفسیاتی مریض ہوتا ہے اس بات کا ثبوت یہ ہے آج جب خواتین نوکری کرنے جاتی ہیں تو انہیں جس طرح جنسی طور پر ہراساں کیا جاتاہے وہ منٹو کے افسانے لائسنس کو بہت زیادہ واضح کردیتا ہے اسی طرح قانون کا طبقاتی کردار کو جس طریقے سے منٹو نے نیاقانون افسانے میں بیان کیا ہے وہ بھی عملی طور پر ہمارے سامنے ہے منٹو پر مقدمات بھی چلے اور لوگ بغیرپڑھے ان کی فکر کو کوستے ہوئے نظر آتےہیں مگر منٹو ایک عہد ہیں ایک بڑی شخصیت ہیں اور ان کا بے باک اور چبھتا ہواسچ اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔

سعادت حسن منٹو پر انڈیا میں فلمیں بھی بنائی گئیں پاکستان میں ان پر بنی فلم پر پابندی لگ چکی ہے بہر حال مجھ جیسا ادنی انسان منٹو کی شخصیت کا احاطہ نہیں کرسکتا ایک بات تو طے ہے کہ ہمارا معاشرہ اپنی سوچ کے برعکس کھڑے نوبل انعام یافتہ شخص کو بھی تسیلم کرنے کے لیے تیار نہیں چاہے بین الاقوامی دنیا ان کے نام پر سکالرشپ جاری کرے یا ان کے مجسمے لگا دے ہم اسے صرف اس لیے تسیلم نہیں کرتے کہ وہ ہماری سوچ یا کمیونٹی کا رکن نہیں ۔ بہر حال منٹو جیسے تو ہر عہد پیدا ہوتے رہتے ہیں اور اپنی بے باکی سے لوگوں کو اب سچ کا آئینہ دکھاتے رہتے ہیں اور ایسے لوگ نتائج کی پرواہ نہیں کرتے مگر وقت ثابت کرتا ہے کہ وہ لوگ تاریخ کی درست سمت میں کھڑے رہے منٹو جیسی شخصیت اور ان کی لکھی تحریریں آج بھی ہمارا منہ چڑا رہی ہیں اور ان کی شخصیت کا احاطہ کرنے کے لیے کئی کتابیں بھی کم ہیں

عبدالرحمن شاہ

/ Published posts: 20

استاد ،رائٹر،آرٹسٹ اور سماجی کارکن