قضاء آتے آتے تم نے دیر کتنی لگا دی
دیکھ ھم نے جینے میں صدیاں بیتاں دی
تمھارے انتظار میں ہستی گُھل گئی میری
تیری آس پہ مکاں کو ھم نے آگ لگا دی
زندگی سے محض تیرے شعور کی آگاہی لی
باقی کتابِ زیست میں ھم نے ہر شے بھلا دی
آتش دانِ غم جب ٹھنڈا پڑا خود ایندھن بخشا
تجھ سے وفا قائم رکھی ہمیشہ خود کو جفا دی
کسی غم کے سبب ہی تُو واقع ھو جائے مجھ پہ
درد دینے والوں کو میں نے اکثر ہاتھ اٹھا دعا دی
اغیار کے گھر تیرا بڑا آنا جانا دیکھا ھے موت
یاد آئی کسی نے کل نفسٍ ذائقہ الموت کی صدا دی
تیرے انکار پہ چار دن اور جی لیتے ھیں قضاء
ورنہ تجھے پانے کے لیے خود کو بڑی سزا دی