کسی بھی ملک کے لا انفورسمنٹ کے ادارے عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے بنائے جاتے ہیں. اور ان اداروں کے لوگ اپنی جانیں قربان کر کے عوام کے جان و مال کی حفاظت کرتے ہیں. مگر اس مملکت خداداد میں الٹی گنگا بہہ نکلی ہے وہ ادارے جو آپ کی جان کے محافظ ہیں انہی سے ڈر آنے لگا ہے کہ کسی بھی وقت کسی چوک چوراہے میں آپ کو خون سے لت پت کر دیں گے اور آپ کی لاش آپ کے گھر والوں کو بھیج کے ساتھ مغفرت کی دعا بھی لکھ بھیجیں گے۔
اس مملکت خداداد میں ہمیشہ. ڈر رہتا ہے کہ کسی بھی وقت بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ کو قتل کردیا جائے گا یا کسی نوجوان کو جو نئے پاکستان اور ریاست مدینہ کے خواب آنکھوں میں سجائے گھر سے باہر نکلے گا تو اسی ریاست مدینہ کے محافظ اس کا سینہ گولیوں سے چھلنی کر دیں گےاگر سانحہ ساہیوال کے مجرموں کو سزا مل جاتی تو پھر یہ اسلام آباد والہ سانحہ کبھی نہ ہوتا مگر جب امیر ریاست مدینہ کی جانب سے وعدے کے باوجود ساہیوال سانحہ کے مظلوموں کو انصاف نہ مل سکا تو اس طرح کے واقعات کا ہونا تو بنتا تھا۔ یہ تو ابھی شروعات ہے ابھی تو نہ جانے کتنے مظلوموں کو ناحق قتل کر دیا جائے گا کتنے بچے یتیم ہوں گے کتنی ماؤں کی گود اجاڑ دی جائے گی کیونکہ جب ریاستی قاتل بن جائے تو مقتولوں کو انصاف کہاں ملتا ہے-جس ریاست مدینہ کا نعرہ عمران خان اینڈ کمپنی نے لگایا ہے وہ ریاست مدینہ کے انصاف پر مبنی تھی
وہ پوزیشن اور اختیارات نہیں دیکھے جاتے تھے وہاں انصاف کا بول بالا کیا جاتا تھا وہاں اگر وقت کے خلیفہ کے سامنے کو یہودی بھی کھڑا ہو جاتا تو اسے بھی انصاف دیا جاتا تھا مگر ایک ہمارے امیر کی ریاست مدینہ ہے جس کے گلی کوچوں میں مظلوموں کا خون بہایا جا رہا ہے مگر انصاف دور دور تک نظر نہیں آتا اگر خلق خدا پر اس طرح کا ظلم جاری رہا تو امیر صاحب پھر خالق خود میدان میں آئے گا تو ظلم کے بڑے بڑے بت الٹ دیئے جائیں گے تو ڈریں اس وقت سے۔اگر اسلام آباد والے سانحہ کا انجام بھی سانحہ ساہیوال اور دیگر مظلوموں کے قتل جیسا ہوا تو اس ریاست مدینہ کے دعویداروں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا اب بھی وقت ہے کہ انصاف کا بول بالا کیا جائے اور ظالموں کو قرار واقعی سزا دی جائے چاہے وہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں کیونکہ معاشرے کا نظام کفر پر قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم پر قائم نہیں رہ سکتا