جب نبی اکرم صلی اللہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو اہل مدینہ میں سے ہر مسلمان کی خواہش دی کہ حضور علیہ السلام اس کے گھر میں تشریف رکھے لیکن حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جس جگہ میری اونٹنی بیٹے گی میرا قیام وہی ہوگا حضور علیہ السلام کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر کے پاس بیٹھ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی کیا فرمایا – جس جگہ اونٹنی بیٹھی تھی وہ جگہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو مسجد کے لئے بہت پسند آئی حضور علیہ السلام نے اس جگہ پر مسجد بنانے کا فیصلہ کر لیا
اس سے پہلے جہاں بھی نماز کا وقت ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرماتے تھے مسلمانوں کو اکٹھا کرکے ایک مقام پر نماز پڑھنے کی ضرورت کے پیش نظر مسجد کے قیام کی ضرورت پڑی–
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پسند کی جگہ کے مالک کے بارے میں دریافت فرمایا تو پتہ چلا کیوں جگہ دو یتیم بچوں سہل اور سہیل کی جگہ ہے جن کی کفالت ایک صحابی حضرت معاذ بن عفراء رضی اللہ تعالی عنہ کرتے تھے – حضور علیہ السلام نے دونوں بچوں سے مسجد کی تعمیر کی اجازت طلب کی اور زمین کی قیمت بھی دریافت کی – یتیم بچوں نے مسجد کے لیے زمین کی قیمت لینے سے انکار کر دیا اور جواب دیا کہ اس کے بدلے میں اللہ تعالی اس کو بہت ثواب اور اجر دیں گے لیکن حضور علیہ السلام نے قیمت ادا کر کے مسجد کی تعمیر شروع کروائی —
مسجد نبوی کی تعمیر کا آغاز یکم ربیع الاول مطابق 422 عیسوی میں ہوا – ابتدا میں ستر ہاتھ لمبی اور 60 ہاتھ چوڑی جگہ کی صفائی کر کے قبلہ رخ کھجوروں کے درختوں کی دیوار بنائی گئی – مسجد کی دیوار کچی اینٹوں اور گارے سے بنائی گئی – کھجور کے درخت کے تنوں سے ستون بنا کر اوپر کھجوروں کی پتوں اور شاخوں کی چھت بنائی گئی – اس طرح مدینہ میں اسلام کی پہلی باقاعدہ مسجد کی تعمیر کی گئی- بعد میں بارش سے بچاؤ کے لئے مسجد کی چھت پر مٹی اور گارے سے لپایٔی کردی گئی ترکی پانی مسجد کے اندر نہ ٹپکے – مسجد کا فرش پتھر کی کنکریوں سے بنایا گیا تھا – اس تعمیر میں تمام صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ساتھ نبی علیہ السلام نے بھی حصہ لیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھوں سے گارا اور اینٹے اٹھاتے اور لگاتے تھے – اس ابتدائی مسجد میں نہ کوئی محراب نہ کوئی منبر اور نہ کوئی اس کا مینار تھا- جوں جوں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا توں توں مسجد کا توسیع کام بھی جاری رہا —
مسجد نبوی حضور علیہ السلام کے دور میں مختلف مقاصد کے لئے استعمال ہوتی رہی جہاں مسجد نبوی ایک عبادت گاہ ایک درس گاہ اور ایک تربیت گاہ تھی وہاں یہ جنگی تیاریوں اور غیر ملکی وفود سے ملاقات اور بات چیت کا مرکز بھی تھا یہ مسجد آج بھی اقوام عالم کے لئے مسلمانوں کے درمیان امن اخوت رواداری اتحاد اور اسلامی بھائی چارے کی عظیم مثال ہے ۔ اس جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی اسلامی فلاحی مملکت کی بنیاد کی