فرقہ واریت اور شدت پسندی کا خاتمہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے ؟ فہم اور رائے کا اختلاف فطری ہے ـ اختلافات تو کائنات کا حسن ہیں ـ دنیا کی تمام تر ترقی اور جدت کی بنیاد حسنِ اختلاف ہی ہے ـ
لیکن اختلاف کی بنیاد پر تعصب شدت پسندی اور قتل و غارت جیسا کہ بعض مذہبی حلقوں کی روش ہے سراسر جہالت ہے ـ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اختلاف کو درس گاہوں تک محدود کرنے سے فرقہ واریت کو روکا جا سکتا ہے ـ جب کہ محض یہ خام خیالی ہے ـ
فرقہ واریت کا تعلق اختلافات کے محدود یا لامحدود ہونے سے نہیں ـ
بلکہ اس کا تعلق اختلافات کو بیان کرنے کے انداز اور رویے سے ہے ـ
اگر ہر مولوی منبر پر اپنی بات یہ کہہ کر پیش کرے کہ یہ میری رائے ہے جو میں قرآن و سنت سے سمجھا ہوں، اس کی یہ دلیل ہے اگر تمھیں اس سے بہتر رائے اور دلیل کسی اور سے ملے تو وہ قبول کر سکتے ہو، میں بھی ہر وقت اپنی رائے پر نظرِ ثانی کے لیے تیار ہوں ـ
دوسرا کام یہ کریں کہ منبر پر قصے کہانیاں بیان کرنے کی بجائے قرآن بیان کیا جائے ـ تو فرقے خود بخود تحلیل ہو جائیں گے اختلاف کے باوجود بھی لوگ ایک دوسرے سے محبت کریں گےـ
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر مولوی اپنی بات کسی پیغمبر کی طرح نہ صرف حتمی انداز میں بیان کرتا ہے بلکہ وہ اسے دوسروں پر مسلط بھی کرنا چاہتا ہے اگر کوئی اس سے اختلاف کی جسارت کرے تو اس پر کفر و شرک اور گمراہی کے فتوے داغ دیے جاتے ہیں ـ لوگوں کو اس کے خلاف اشتعال دلایا جاتا ہے ـ اپنی رائے پر نظرِثانی گوارا نہیں کی جاتی ـ اصرار کیا جاتا ہے کہ کسی دوسرے کی بات نہیں سننی ـ یہاں سے فرقہ واریت پیدا ہوتی ہے ـ
دنیا میں علم، ادب، سائنس ہر جگہ ہزاروں اختلاف ہیں لیکن نہ کوئی کسی پر فتوی لگاتا ہے نہ کسی کے خلاف مشتعل کیا جاتا ہے نہ اپنا نظریہ مسلط کیا جاتاہے ـ اہلِ علم جذباتیت سے بالاتر ہو کر خالص علمی گفتگو کرتے ہیں جس کی دلیل معقول ہوتی ہے اسے دنیا تسلیم کر لیتی ہے ـ نہ کوئی قتل ہوتا ہے نہ کسی کی نیت پر فتویٰ لگتا ہے ـ
صرف ایک مذہب ہے کہ جہاں ہر مولوی پیغمبر بن کر اپنی بات پیش کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہر شخص اسے آنکھیں بند کر کے مان لے ـ
( یامین غوری)