امی اور ابو چائے کےٹیبل پر بیٹھے باتیں کرتے ہیں بھائی حمزہ کی شروع سے یہ خواہش تھی کہ دانی کی پرورش ہماری نگرانی میں ہو اور پھر خدانے کیا بھی ایسا ۔امی ۔جی پھر یہ اللہ کا شکر ہے کہ دانی ہمارے ساتھ ہیں بھی خوش ۔حالانکہ جب اس کے ماں باپ کا انتقال ہوا وہ سات سال کا تھا پھر بھی اس عمر کے بچے کو ہر بات یاد رہتی ہے ۔ابو۔ امی کو کہتے ہیں تمہاری محبت نے اسے ماضی میں رہنے ہی نہیں دیا
حادثے کے کچھ عرصے بعد ہمارے ساتھ نئی زندگی میں مگن ہو گیا تھا بھائی دانی ماشاءاللہ بڑا ہو رہا ہے ٹھیک ہے وہ حویلی میں اس طرح دل دھندلاتا پھرتا ہے لیکن آسیہ بیٹی کے ساتھ یہ بے تکلفی ہمیں منظور نہیں آسیہ کی ماں کہتی ہے میرا خیال ہے کہ وہ آہستہ آہستہ ان باتوں کو سمجھ جائے گا ابھی اسے کچھ کہنا کچھ ٹھیک نہیں ابو ارے کیوں نہ کچھ کہا جائے کیسی باتیں کر رہی ہو آپ ٹھیک ہیں دونوں آپس میں کزن ہیں لیکن ہم نے بھی تو ان کے بارے میں کچھ سوچ رکھا ہے آسیہ کی امی پریشان ہوں گھر نیچے دیکھنے لگی ابو اس لیے دونوں میں حجاب بہت ضروری ہے امی جی بہتر ضروری ہے ابو اب انہیں پردے میں نہ بٹھا لیجئے گا دونوں کو الگ الگ سمجھائیں گے وہ سمجھ جائیں گے سمجھدار کیلئے اشارہ ہی کافی ہے کہ آسیہ کی ماں سر ہلاتے ہوئے کہتی ہے جی بہتر اور چائے کے کپ اٹھائے ہوئے پریشان ہو کر چلی جاتی ہے اور غصے بھری نگاہوں سے اسے دیکھتے ہو ۓجاتی ہے آسیہ اپنے کمرے میں گھنگھنا رہی تھی ۔۔ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے عشق کیجئے عشق عشق کیجئے اور سمجھ جائے زندگی کیا چیز ہے ۔۔
اتنے میں اچانک دروازہ کھلتا ہے اور اما کمرے میں داخل ہوتے ہی بولیں کیا ہوگیا تمہیں خیریت تو ہے آسیہ اماں میں تو بس ایسے ہی۔ اما۔ آج کل تمہارا دھیان کہیں اور ہوتا ہے سارا سارا دن دانی کے کمرے میں گھومتی رہتی ہوں اما وہ تو میں بس دانی کو میتھ کے سوال سمجھانے آئی تھی ابھی اس کی الجھن سلجھانے کا وقت نہیں آیا کیا مطلب مطلب چھوڑواور دانی کو آج کے بعد بھائی کہنا چھوڑ دو یہ کیوں کہ ہر کیوں کا جواب نہیں ہوتا آسیہ تو پھر آپ ایسی باتیں کیوں کرتی ہو جن کا جواب آپ کے پاس نہیں ہوتا امی جب وقت آئگا تو میں جواب دونگی۔دانی گھر میں داخل ہوتا ہے اس کے ہاتھ میں ایک ڈبا ہوتا ہے وہ اپنے کمرے میں جاکرڈبے کو کھولتا ہے اور ایک موبائل نکال کر سم ڈال کر حمزہ کو کال کرتا ہے اور کہتا ہے بھائی میں نے آپ کا موبائل فٹ کر دیا ہے ہاں اچھا ایک منٹ پھر دانی مبائل لیے آسیہ کے کمرے میں چلا جاتا ہے آسیہ کمرے میں کھڑکی سےپردہ اٹھا رہی ہوتی ہے
اچانک دانی کمرے میں داخل ہوتا ہے آسیہ کہتی ہے سارا وقت تم گھر میں دندناتے پھرتے ہو بڑے ہو گئے ہو یار تھوڑی بریک لگاؤ دانی لو لگ گئی بریک حمزہ بھائی سے بات کریں آسیہ موبائل لے کر کہتی ہے یہ کہاں سے آیا دانی بات تو کرو آپ کو سب پتہ چل جائے گا اور میں باہرذرا نگرانی کرتا ہوں ٹھیک ہے اور دانی چلا جاتا ہے آسیہ فون کان کو لگا کر ہیلو کرتی ہے اور خوشی سے حمزہ کے ساتھ مگن ہو جاتی ہے دوسرے دن ۔ امی کے پاس ابو بیٹھے ہوتے ہیں اور امی کو کہتے کچھ چیزیں ہمارے خاندان روایت کےساتھ ساتھ چلتی ہیں. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .ابھی جاری ہے بقیہ