ابنِ آدم کو خود کی تخلیق کردہ چیزوں میں سب سے زیادہ محبوب اپنی زبان اور ا س سے منسلک تہذیب ہوتی ہے۔یہی انسان کی میراث اور سرمایہ ہوتی ہے۔ علوم و فنون میں عبور حاصل کرنےاور باہمی کا بنیادی ذریعہ زبان ہی ہے۔غور کیا جائے تو دنیا کی ہر ترقی یافتہ قوم کو اپنی قومی زبان عزیز از جان ہوتی ہے۔ ہر باوقار قوم کو اپنی زبان پر فخر ہوتا ہے۔ اس کی مثال عربوں سےلی جا سکتی ہے، عربوں کو اپنی زبان (عربی) اس قدر اعلیٰ و ارفع لگتی ہے کہ وہ دنیا کی باقی اقوام کو “عجم” یعنی گونگا سمجھتے ہیں۔
اسی طرح ہندستان کے باسیوں کی اپنی مقامی اور قومی زبان اردو ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق کرہ ارض پر بولی جانے والی مقبول اور بڑی زبانوں میں انگریزی اور چینی کے بعد تیسری بڑی زبان اردو ہے۔اردو برصغیر پاک و ہند یعنی متحدہ ہندوستان کی مقامی زبان ہے۔ یہ واحد زبان ہے جس نے ہندوستان میں جنم لیا کیونکہ دوسری زبانیں تو یہاں آنے والی اقوام اپنے ساتھ لے کر آئی تھیں۔1500 قبل از مسیح جب آریا لوگ ہندوستان میں داخل ہوئے تو ان کے ساتھ ہندی زبان آئی تھی-1526ءمیں ظہیرالدین بابر کی حکومت سے ہندوستان میں مغلیہ دور شروع ہوا تو اسوقت فارسی کو ہندوستان میں جگہ ملی، اور عربی زبان تو عربوں کی ملکیت تھی۔ایک اردو زبان ہی ہے جس کا جنم سرزمینِ ہندوستان پر ہوا۔ یہ ایسی فقیدالمثال زبان ہے جو اس خطے میں بولی جانے والی باقی تمام زبانوں کو اپنے اندر ضم کر نے کی اہلیت رکھتی ہے۔
اردو ایک شائستہ ،میٹھی اور لطیف زبان ہے جو شخص روانی کے ساتھ اردو بولتا ہے ، سننے والوں کو اس کا لہجہ متاثر کرتا ہے۔ جبکہ ہندوستان میں مقیم ہندو قوم اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھتے تھے، اسی تناظر میں کئی بار اردو ہندی تنازعات کھڑے ہوئے۔ لیکمن پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم نے 1948ء میں اپنے خطاب میں یہ واضح کر دیا کہ پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان اردو ہوگی۔لیکن اس قوم کی زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہونے کے لیے اپنی قومی زبان کی اہمیت کو بھول کر انگریزی زبان کو ترقی کا زینہ سمجھ بیٹھےہیں۔احساسِ کمتری کا یہ عالم ہے کہ اردو بولنے والےکو تعلیم سے ناآشنا جبکہ انگریزی میں بات کرنے والے کو اعلیٰ تعلیم یافتہ جانا جاتا ہے۔ ہمیں یہ بات زہن نشین کر لینی چاہیے کہ قابلیت کا معیار انگریزی زبان نہیں ہے۔ بلکہ انگریزی تو محض ایک زبان ہے جسے عالمی سطح پہ باہمی ربط اورگفتگو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ترقی کا راز تو علوم و فنون کی منازل طے کرنے اور ایجادات کی دنیا میں جھنڈے گاڑنے میں ہے۔جب تک ہم دوسرں کی ایجادات پر انحصار کرتے رہیں گےاوردوسری اقوام کی جدت زدہ تہذیب کو اپنے اوپر مسلط کرنے کی کوشش میں مگن رہیں گے ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ پھر انگریزی تو کیا دنیا میں بولی جانے والی تقریبا 4720 بولیاں بھی سیکھ لیں گے تو پھر بھی ہم مفلوج الحال ہی رہیں گے۔انگریزی زبان سیکھنے میں کوئی قباحت اور حرج نہیں بلکہ یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ بس اسے وقت کی ایک ضرورت سے زیادہ اہمیت دینا حماقت ہے۔ انگریزی کی آڑ میں ہم نے اپنی قومی زبان سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کرنا شروع کردیا ہے۔اسی اثنا پہ ہمارا نوے فیصد سے زیادہ تعلیمی نصاب بھی انگریزی زبان کی نذر ہوگیا ہے۔ طلباء انگریزی زبان میں طوطے کی طرح رٹے مار کر نمبرز کی دوڑ میں تو شامل ہو رہے ہیں لیکن اب چشمِ فلک جابر بن حیان، بوعلی سینایا پھر ابن الہیثم جیسے سائنسدان دیکھنے کو ترس چکی ہے۔
کیونکہ طلباء کو تدریسی نصاب انگریزی میں فراہم کیا جاتا ہےاور ان کی سوچ کا زاویہ اپنی مقامی زبان میں بہتر کام کرتا ہے۔ تو کیوں نہ سوچ کی حامل زبان اور تدریسی زبان کو ایک کردیا جائے تاکہ پھر سے مسلم سائنسدان دنیا میں اپنا لوہا منوا سکیں۔ پھر سے اپنی ایجادات کے ذریعے ہم دنیا کو متاثر کرسکیں اور ترقی یافتہ اور بااختیا ر اقوام کی صف میں کھڑے ہوسکیں۔
عادل فاروق