اسلام علیکم قارئین جیسا کہ اکثر کہا جاتا ہے کہ بچے کی تربیت اس کی ماں کی گودھ ہوتی ہے یعنی کہ بچے کی تربیت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے لیکن ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کہ ہمارے بچوں کے تربیت کا کچھ ٹائم جو گزرتا ہے وہ سکول میں بھی گزرتا ہے تو اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارے اسکول کا اس میں بہت بڑا کردارہے -پرائمری سکول وہ جگہ ہوتی ہے جہاں سے بچہ دنیا کو دیکھنا شروع کرتا ہے اور اگر ایک بچے کو پرائمری تعلیم اچھی دی جائے تو آ گے جا کے بہت اچھی طرح سے تعلیم حاصل کر سکتا ہے کیوں کہ اگر بنیاد اچھی ہو بنیادی اینٹ کسی مکان میں بھی اگر اچھی لگائی جائے تو گھر مظبوط بنتا ہےلیکن ہمارے تعلیمی نظام میں بہت ساری خامیاں ہیں اور اس میں بہت سے عناصر کارفرما ہیں
اور اس میں ایک بڑی وجہ اساتذہ کی لاپروائی ہے اکثر ہمارے اساتذہ کو اپنے کام سکول کے اوقات میں یاد آتے ہیں اور وہ اسی دورانیے میں اس کو انجام دیتے ہیں- بچوں کے حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی بلکہ ہمارے پرائمری سکولوں میں بچوں کو ڈرا کر پڑھایا جاتا ہے اور یہ ان کی شخصیت کو بہت ہی غلط سمت میں لے کے جاتا ہے ایک ان کی شخصیت میں ڈر پیدا کر دیتا ہے اگر بچے میں شروع سے ہی خود اعتمادی پیدا کی جائے اور اس کی شخصیت پر غوروفکر کی جائیں اور ایک اچھا استاد اگر اسے اس کی شخصیت کو نکھارے تو وہی بچہ خود اعتمادی کے ساتھ بہت ہی آسانی کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچ سکتا ہے بعض لوگ میرے اس نظریے سے اتفاق نہیں کریں گے وہ کہیں گے کہ اس میں کی بھی غلطی ہوتی ہے.کیونکہ بچہ تو بچہ ہے اس کو اس وقت اپنے اچھے برے کی اس کو اس وقت اپنے مستقبل کے اس کو نہ ہی معاشرے کی کسی چیز کا اسے صحیح علم ہوتا اسی وجہ سے ایک استاد ہی ہے جو کہ اس کی بنیادیں مضبوط کر سکتا ہے .
اس کے لئے ہمیں اپنے پرائمری سکولوں میں سب سے پہلے تو آپ نے جو بچے کی سوچ پر توجہ دی جائے ان کو صرف مثبت چیزوں کی طرف لے جائے اور ان کو سکھایا جائے کہ کیسے وہ معاشرے کے معمر افراد بن سکتے ہیں جو کہ ملک و قوم کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے۔اور پرائمری اسکولوں کی اس تنزلی کی ذمہ دار ہماری گورنمنٹ بھی ہیں جو کہ مختلف قوانین اورتریقے بنا تو لیتی ہے لیکن ان کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتے کیوں کہ اس کے لیے بہت سارا وقت اور محنت درکار ہے تعلیمی پالیسی بنانے والے ادارے کو چاہیے کے ایک تنظیم ایسی بھی ہوجو کہ اس سب کو نافذ کرے اور اس کو ہر طرح سے ساتھ سے جانچ پڑتال بھی کی جائے ۔شکریہ