پاپا کب آئیں گے؟

In ادب
January 01, 2021

وہ عید الفطر کی رات تھی، ہرطرف خوشیاں فضاء کو پر رونق بنا رہی تھیں، لوگ اپنے پیاروں کے ساتھ بازاروں کی طرف جارہے تھے، بازار خریداروں سے کھچا کھچ بھرے پڑے تھے۔علینا اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی، وہ اپنے والدین کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کررہی تھی، غم و پریشانی اُس کے قریب سے بھی نہ گزری تھی۔ آج کی رات وہ بھی اپنے ابو کے ساتھ عید کے لئے کپڑے اور چوڑیاں وغیرہ خریدنے بازار پہنچی تھی۔

“پاپا! یہ کلر کیسا لگے گا مجھ پہ؟”
“بہت خوب! یہ پہن کر تو میری علینا پریوں کی شہزادی لگے گی”
پاپا کا جواب سُن کر وہ ہنسنے لگی تھی لیکن۔۔۔۔۔۔
لیکن کون جانتا تھا کہ اس ہنسی کے بعد رونا اس کا مقدر بن جائے گا۔
عید کی شاپنگ کرنے کے بعد وہ مارکیٹ سے باہر نکل رہے تھے کہ اچانک علینا کی نظر آئس کریم پر پڑی۔
“پاپا مجھے آئس کریم کھانی ہے” علینا نے کہا۔
“تم یہیں ٹھہرو، میں ابھی لے کر آتا ہوں” پاپا نے جواب دیا

اس کے بعد پاپا آئس کریم لینے چلے گئے اور وہ وہیں کھڑی تھی کہ اچانک ایک زوردار دھماکے چند لمحوں کے لئے حوش وحواس اُڑا دیئے تھے
تھوڑی دیر بعد جب ہوش سنبھلے تو ہرطرف تباہی، کانچ کے ٹکڑے، خون میں لت پت بکھرے ہوئے گوشت کے ٹکڑے، زخموں سے چور بچوں اور عورتوں کی سسکیاں۔۔۔۔۔میری امی، میرے ابو، میری بہن، میرا بھائی، میری بیوی، میرا خاوند، میری بیٹی، میرا بیٹا غرض ہر کوئی اپنے پیاروں کے لئے ماتم کر رہا تھا۔اچانک، علینا کی نظر ایک کٹے ہوئے ہاتھ پر پڑی جس میں وہی انگوٹھی تھی جو اس کے پاپا نے پہنی ہوئی تھی۔”نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟۔۔۔۔۔۔ پاپا۔۔۔۔۔۔آئس کریم۔۔۔۔۔۔” وہ ایک لمحے کے لئے رُک گئی لیکن وہ اُس وقت ٹوٹ گئی جب کسی نے کہا:”وہ رہا اِس لاش کا ہاتھ”علینا کو لاش کے پاس دیکھ کر ایک سیکیورٹی اہلکار نے پوچھا”بیٹی! کیا آپ اس لاش کو جانتی ہیں؟”قبل اس کے کہ وہ کچھ اور کہتے، علینا روتے ہوئے بولی”پاپا ، پاپا پلیز اٹھو! ، پاپا اب مجھے کون شہزادی کہے گا، کون مجھے شاپنگ کروائے گا، کون میرے ارمان پورے کرے گا، پاپا ایک مرتبہ اُٹھ کر اپنی شہزادی کے سر پر ہاتھ رکھ دو پلیز!، پاپا مجھے بھی ساتھ لے جائیں میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی، پاپا پلیز میری کسی بات کا تو جواب دے دیں، پاپا آپ تو آئس کریم لینے گئے تھے”

اسی دوران اُس نے چیخ ماری اور بیہوش ہوگئی۔اُس کی یہ حالت دیکھ کر دیواریں بھی رو پڑیں، وہاں موجود ہر شخص کی آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے اور اس طرح ایک چھوٹا سا جنت نما گھر قبرستان میں تبدیل ہوگیا۔ایک معصوم بچی کی آرزوئیں اور حسرتیں دل ہی دل میں دفن ہوکر رہ گئیں۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔اپنوں کے بچھڑنے کا دکھ، ماں کا پیار، بچوں کی سسکیاں یہ کیا جانے جو چند پیسوں کی خاطر اپنا ایمان، ضمیر اور عزت تک بیچ ڈالتے ہیں