فقہاءکا فقہی اختلافت اور ان کے اسباب
تمام آئمہ فقہ اسلام کے عقائد،ضرویات،اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت پر سب فقہاء سب علماء اس پر متفق ہیں ۔سب فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ احکام شرعیہ کا بنیادی ماخذ قرآن وسنت ہے ۔اور فقہاء جس فروعی مسلہ میں اختلاف کرتے ہیں- اس میں ایک فقہ دوسری فقہ کو کافر نہیں قرار دےتھے۔ بلکہ یہ فیصلہ مسلمانوں پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ دونوں رائے میں جس پر عمل کرتے ہیں وہ لیں اور جس کو چاہیں قبول کریں ۔اور اس اختلاف کو فروعی اختلاف کہا جا تاہے بلکہ کجھ علماء نےان کو رحمت کہاہے ۔
فقہ کے مدون ہونے سے پہلے اور باالخصوص عہد رسالت میں فقہی جزئیات کا وجود نہیں تھا بلکہ جو بھی مسلہ آتا قرآن اور احادیث سے حل کیا جا تا اور جو بھی مشکل آتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی حل نکال تھااور جو لوگ مدینہ سے باہر تھے یاان کو جب کسی مسلہ میں نئ صورت حال کا سامنا ہوتا ،یا نئ مسلہ پیش آتا یا قرآن وسنت کی تعبیر میں اختلاف پیداہو جاتااور کبھی کسی واضح حکم نہ ملتا تو اس وجہ سے مختلف اجتہادی آرا بھی سامنے آتیں ۔ تو جب صحابہ کو موقعہ ملتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں حاضر ہوتےتو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رائے پیش کیا جاتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی درست صورت بیان کرتے تو وہ سنت بن جاتی اور اس طرح اختلاف ختم ہوجاتا ۔صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احزاب کے موقعہ پر صحابہ اکرام ؓ کا ایک دستہ بنو قریظہ کی طرف روانہ وقت فرمایاتھا: لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة ) بنو قریظہ پہنچنے سے پہلے کوئ شخص نماز عصر ادا نہ کرے)-
جب راستے میں وقت کانماز آگیا تو اختلاف پیدا ہوا کہ نماز قریظہ پہنچ کر پڑینگے کیوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا کہ قریظہ پہنچ کر نماز اد کی جائے- اسلئے ہم نما زوہاں ادا کرینگے -اور دوسرے فریق نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کامقصود یے تھا کہ آپ جلدی سے قریظہ پہنچ جائے ،اب جونکہ نماز راستے میں آگیا ہے تو یہاں پھڑلینے میں کوئ مضائقہ نہیں ۔تو یہاں ایک فریق نے ظاہری حدیث پر عمل کیا جب کہ دوسری فریق نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کیا۔اور جب دونو ں گروہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مسلہ پیش کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونو ں کو درست فرمایا۔تو اس سے معلوم ہوا کسی فریق نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انحراف نہیں کیا ۔یہ اختلاف کی عمدہ مثال ہے ۔(حوالہ :فقہی اختلافات ،اسباب اور آداب وضوابط صفحہ ۱۹۔۲۰۔۲۱۔ڈاکٹرحبیب الرحمٰن ،پبلیشر،شریعہ اکیڈمی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد )تو اس سے معلوم ہوجاتاہے کہ اختلاف اس وقت بھی موجود تھا ۔اور جو ہمارے فقہاء کا اختلاف ہے۔
اصول اجتہاد میں اختلاف۔
تو سب سے پہلےاس میں اختلافات اس وجہ سے آتےہیں کہ جووصول فقہاء نے وضع کی ہے تو اس میں ایک اصول ایک امام کے نزدیک اصول اجتہاد ہوتاہے اور باقی کہ نہیں تو اس وجہ سے پھر اختلافات پیدا ہوجاتاہے ۔جیسےمثال کے طور پر اجماع مدینہ امام مالکؒ کے نزدیک اصول اجتہاد ہے لیکن باقی فقہاء اجماع مدینہ کو نہیں مانتے۔یاامام ابوحنیفہؒ استحسان کو مانتے ہے اور امام شافعیؒ استحسان کو نہیں مانتے۔بلکہ امام شافعی ؒ فرماتے ہے کہ جس نے استحسان کیااس نے خود دین گھڑ لیا ۔
اختلاف کاسبب
مشہور قرا میں سے ابن عامر ؒ اور کسائی لفظ ارجلکم میں لام پر فتحہ پرھتے ہیں ۔ابن کثیر ،عمر اورحمزہ لام کے نیچے کسرہ پڑھتے ہیں ۔تو یہاں قرءت کی وجہ سے اختلاف پیدا ہوجاتاہے -جمہور علماء لام پر فتحہ کی قرء ت کا اختیار کرتاہے اور زیر کی تاویل کرتاہے ۔اس لیے ان کے نزدیک پاوں دھونافرض ہے ،مسح جائز نہیں ہے ۔کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پاوں پر دھونااور موزوں پر مسح کرنا ثابت ہے۔حوالہ :فقہی اختلاف کے اسباب۔مصنف ڈاکٹر حبیب الرحمان) (صفحہ ۹۴۔۹۵ )شریعہ اکیڈمی ۔اسلامی یونیور سٹی اسلام آباد)
Also Read:
اشتراک معنی
جیسے قرآ ن میں اللہ تعالی فرماتےہے۔ والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء،تو یہاں امام ابوحنیفہؒ قروء سے حیض لیتاہے اور امام شافعی ؒ طہر لیتاہے-اور تیسری وجہ ۔روایات میں اختلافتمام صحابہؓ ہروقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود نہ ہوتے یاایک صحابی کا ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بار ہوتا اور اس نے جو اس نے جو سن لیا تھا وہ اس کو بیان کرتا اگر بعد میں وہ حکم منسوخ بھی ھوجاتا تو زرائع ابلاغ کی کمی کی وجہ سے ان تک نہیں پہنجاتا ، اور اس طرح یے مشکل تابعین کے وقت میں بھی موجود تھا تو آئمہ فقہ کا اختلافات کی سبب بنی۔
نص کی تفہیم و تعبیر میں اختلاف
بعض اوقات قرآن اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو سمجھنے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوجاتا جو امام کسی حکم کو زیادہ مقاصد شریعت کے مطابق پاتا اس کو اختیار کرلیتا تو اس وجہ سے اختلاف بن جاتا ۔مثالوں کے لیے ملاحظ ہو :فقہی اختلاف کے اسباب۔مصنف ڈاکٹر حبیب الرحمان) (صفحہ ۱۰۵۔۱۰۶۔۱۰۷)شریعہ اکیڈمی ۔اسلامی یونیور سٹی اسلام آباد)
یہ آرٹیکل پورا مکمل نہیں ہے اس کا دوسرا پارٹ بھی آئے گا–ان شاء اللہ
والسلام