Skip to content

معاہدہ لوزان اور ترکی کا مستقبل۔

پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر انگریزوں ایکطرف تو خلافتِ عثمانیہ کے ٹکڑے کردیے لیکن ساتھ ہی موجودہ ترکی کیساتھ ایک ایسے معاہدے پر بھی دستخط کیے جسکی وجہ سے آج بھی ترکی بیرونی سطح پر کی مشکلات اور پابندیوں کا سامنا کررہا ہے۔

وجہ تسمیہ معاہدہ لوزان۔
اس معاہدے کو امن کا معاہدہ بھی کہا جاتا ہے لیکن اِس معاہدے کو لوزان سے منسوب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس معاہدے کا قیام ۲۴ جولائی ۱۹۲۳ کو سات ماہ کی طویل کانفرنس کے بعد سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں عمل میں لایا گیا۔

اہم پس منظراس معاہدے کے تحت
مغربی طاقتوں نے جدید ریاستِ ترکی کی حدود کو تسلیم کیا۔ترکی نے اپنے سابق عرب صوبوں کی ملکیت سے دستبرداری کا اعلان کیا اور ساتھ ہی سائپرس پر برطاںٰیہ کے قبضے کو تسلیم کیا۔مغربی اتحادیوں نے کرد قبائل کی خود مختاری سمیت آرمینیا کے ترک سرذمین سے متعلق مطالبے کو رد کردیا۔ترکی کی آبناۓ ترک کو هر قسم کی تجارت اور جہازوں کی سفر کیلۓ کھلا رکھنے کا اعلان کیا گیا۔اور ترکی کی مسلح افواج پر کسی بهی قسم کی کنٹرول نه ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا۔اس معاہدے پر ترکی کے نمائندوں اور مغربی طاقتوں﴿برطانیہ ، فرانس ، اٹلی ، جاپان ، یونان ، رومانیہ ، اور بادشاہت ، کروٹس اور سلووین (یوگوسلاویہ) کے درمیان دستخط کيے گيے۔

جعرافیائی خدوخال۔
یونان ، بلغاریہ اور ترکی جو کو سلطنت ع‍ثمانیہ کے جانشین ریاستیں ہیں انکی حدود کو محدود کردیا۔ساتھ ہی جزیرہ نما عرب پر شام اور عراق کے جنوب میں شامل خطوں ، جو کہ ٣٠ اکتوبر ١٩١٨ سے پہلے تک ترک کنٹرول میں رہے 30 اکتوبر 1918 کو مدرس کے آرمسٹیس پر دستخط ہونے کے بعد، مملکت یمن ، اسیر ، اور شہر مدینہ جیسے حجاز کے کچھ حصے شامل تھے وہ 23 جنوری 1919 کے بعد ترکی کے کنٹرول سے آزاد ہوۓ۔

معاہدے کے ا‍‍ثرات۔
اس معاہدے کی رو سے سلنت عثمانیہ کے جانشین کے طور پر جمہوریہ ترکی کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا اور معاہدے کے نتیجے میں ، عثمانیوں کا عوامی قرض ترکی اور ان ممالک کے مابین تقسیم ہوگیا جو سابق سلطنت عثمانیہ سے نکلے تھے۔

معاہدہ لوزان،ترکی کا حال اور مستقبل۔
یہ معاہدہ اگرچہ بدنیتي پر مبنی ایک منصوبہ تھا جسکا مقصد ترکی کو مسیحی ریاستوں کے سامنے بے بس کرنا تها لیکن موجودہ دور میں ترکی جس رفتار سے ترقی کررہی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کو ٢٠٢٣ میں ان پابندیوں کے خاتمے پر خطے کی سیاست میں ایک نئی تبدیلی اور ہلچل رونما ہوگی جس کے آثار کافی حد تک ابھی سے نظر آرہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *