وزیراعظم عمران خان
پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان ہیں۔ جہنوں نے حکومت سے پہلے بہت سے دعوے کیے تھے کہ تین ماہ میں ملک کو بہتر کر دے گے سب کو روزگار بھی مہیا کریں گے۔ ایک کروڑ نوکریاں دیں گئے لیکن حکومت کی سب کی سب باتیں ابھی تک بے سود رہیں۔ ان کے دور حکومت میں بہت مہنگائی ہوئی ہے ۔جو ایک مڈل کلاس انساں کے لیے بھی بہت سی مشکلات پیش کر رہی ہے۔ یہ بات سچ ہے اور حقیقت پر مبنی ہے کہ ان کے دور حکومت میں مہنگائی نے آسمان کی بلندیوں کو چھوا۔
ان کو دور حکومت میں ڈالرز کی قیمت لگ بھگ 100 سے اوپر ہو کر 162 تک جا پہنچا۔ مہنگائی کا عالم ہوا پڑا۔ عوام کی آوازیں سننے والا کوئی نہیں۔ پہلے جو سبزی 50 روپے کی ملتی تھی آج وہ سبزی 120 کی ہے۔ سبزی دالیں بھی عوام کی پہنچ سے دور ہیں۔
انھوں نے 20 کلو آٹے کا تھیلا 15 کلو میں کر دیا لیکن قیمت نیچے نہیں کیں ابھی تک۔ 1400 میں 15 کلو آٹے کا تھیلا ۔ پہلی حکومت میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 800 میں ملتا تھا۔ سونے کی قیمت جو پہلے 75000 تھی وہ بھی ڈبل ہو گئ۔
اتنی مہنگائی پاکستان کی سطح میں پہلی بار کی گئ اس سے پہلے زرداری کی حکومت میں مہنگائی کی شرح 11٪ رہی اور اب کے وقت میں مہنگائی کی شرح 13٪ جا رہی ہے۔
چینی کی بات کریں تو ملتی ہی نہیں ہے اور جع مل رہی ہے وہ بھی اتنی مہنگی۔ حکومتی ریٹ پرتقریباٗ 83 روپے میں آ رہی ہے لیکن عوام کو کلو کے حساب سے 108 روپے مل رہی ہے۔ وہ بھی پاؤڈر کی صورت میں۔
ایک طرف حکومت نے اتنی مہنگائی کی ہے دوسری طرف وہ زخیرہ اندوزں کے خلاف ایکشن بھی لے رہی ہے۔ لیکن مہنگائی اسی طرح ہے۔
لوگ سفر کرنے سے بھی تنگ ہیں گاڑیوں کے اتنے کرایے عوام کا جینا مشکل ہو رہا ہے۔ روزگار مل نہیں رہا۔
اس کے علاوہ کوئی ترقیاتی کاموں میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔ حکومت کی طرف ڈے گورنر ہاؤس کو یونیورسٹی میں بدلنے کا فیصلہ ہوا تھا لیکن ابھی تک وہاں کوئی یونیورسٹی قائم نہیں کی گئ۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے بس گھبرانا نہیں۔ عوام کیسے نہ گھبرائے پہلے چھوٹے طبقہ کے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہوتا تھا۔ اب مڈل کلاس لوگ بھی پریشانی سے دو چار ہیں۔
غریب عوام کی مدد کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ ایک طرف روزگار کے مسائل ہیں دوسری جانب مہنگائی سے عوام دو چار ہے۔
اللّٰہ پاک ملک پاکستان کی مدد کریں۔آمین