انڈیا،ایران (چابہار) بمقابلہ پاکستان،چین (گوادر) بہتر کون؟

In دیس پردیس کی خبریں
December 30, 2020

دنیا کی تجارت کا تقریبا 80٪ سمندری راستے سے چلنے والے راستوں سے ہوتا ہے۔ یہ گرم پانی کی سمندری بندرگاہوں کی اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ جنوبی ایشین خطے کی بہت اہمیت ہے کیونکہ یہ اس خطے میں واقع ہے جہاں دنیا کی بیشتر سمندری تجارت گزرتی ہے۔ اس علاقے میں تیزی سے تبدیلیاں جاری ہیں یعنی گوادر پورٹ اور چابہار بندرگاہ کی ترقی۔ گوادر دنیا کی واحد گرم پانی گہری سمندری بندرگاہ ہے

اور یہ بحر ہند میں داخلہ فراہم کرے گا جہاں سے دنیا کے تیل کی %70 تجارت سالانہ گزرتی ہے۔ گوادر بندرگاہ وسطی ایشیائی ریاستوں ، مشرق وسطی اور تیل سے مالا مال خلیجی ریاستوں تک رسائی فراہم کرتی ہے۔ چابہار بندرگاہ گوادر سے 72 کلو میٹر دور ہے اور افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی کیلئے ہندوستان کی خواہشات کا مرکز ہے۔

گوادر کی اہمیت۔
اگر ان دونوں بندرگاہوں کے بارے میں تجزیہ کیا جائے تو پھر ان بندرگاہوں کے مستقبل کے بارے میں ایک اصل تصویر سامنے آجاتی ہے۔ یہ دونوں بندرگاہیں گہری آبی بندرگاہیں ہیں لیکن گوادر کو زیادہ فائدہ ہےکیونکہ اس کی گہرائی چابہار سے بھی زیادہ ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے تمام بحری جہاز آرام کیساتھ اور محفوظ طریقے سے گوادر کے ساحل پر لنگر انداز ہوسکتے ہیں۔گوادر چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا ایک حصہ ہے جسمیں سڑکوں کی تعمیر کیساتھ ساتھ دیگر ترقیاتی منصوبے شامل ہے جسکے ذریعے یہ بندرگاہ چین، وسطی ایشیائی ریاستوں اور روس کیساتھ تجارت کیلئے منسلک کی جائیگی۔جبکہ چابہار بندرگاہ سیپیک کے طرز پر بھارت ،ایران اور افغانستان کا ایک مشترکہ منصوبہ ہے جسکو ہم سی پیک کا نقل بھی کہہ سکتے ہے۔جو کہ انڈیا سے ایران،افغانستان اور وہاں سے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ذریعے روس پہنچتی ہے۔

منصوبہ بند صلاحیت۔
گوادر چابہار کو ہر پہلو سے زیر کرتاہے۔ چابہار کی زیادہ سے زیادہ منصوبہ بند صلاحیت سالانہ 10 سے 12 ملین ٹن ہے ، اور گوادر کی صلاحیت مکمل ہونے کے بعد 300 ملین سے 400 ملین ٹن ہوجائے گی۔ اگر معاملات عین منصوبے کے مطابق چلتے رہیں تو گوادرمستقبل میں ہندوستان کی ۲۱۲ بندرگاہوں سے بہتر اور مفید ثابت ہوگی جو کہ مشترکہ طور پر جو سالانہ 500 ملین ٹن کو اتفاق سے سنبھالتے ہیں۔

چاہ بہار کی ناکامی کے وجوہات
چابہار کی ناکامی کے کئی وجوہات ہیں جن میں سے سب سے اہم ایران اور افغانستان اور ایران کے اندرونی اور بیرونی حالات ہے۔ایران پر اس وقت اقوام متحدہ سمیت امریکہ اور دیگر کئی ممالک کی جانب سے متعدد پابندیاں ہیں جو کہ مستقبل قریب میں کسی بھی وقت مزید سخت ہوسکتے ہیں۔دوسری جانب اگر افغانستان کی بات کی جائے تو وہاں پر نیٹو کی فوج برا جمان ہے ۔، ساتھ ہی ساتھ طالبان،داعش اور دیگر جہادی گروپوں کی موجودگی کیوجہ سے کسی بھی وقت اس منصوبے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

/ Published posts: 10

My Name is Asfandiyar .I'm student of Journalism and Mass communication.Along with that I am working as a reporter and news writer with Pakistan Broadcasting Corporation

Facebook