فروری کی 9 تاریخ کو اعلان کیا گیا کہ صدر ایوب خان چین کا دورہ کریں گے۔ 2 مارچ 1965 کو صدر ایوب خان اپنے عہدیداروں کے ساتھ آٹھ روزہ دورے پر چین روانہ ہوئے۔ ان کے دورے کے دوران 7 مارچ کو ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں دوستانہ باہمی تعاون کی مکمل یقین دہانی کے ساتھ مشترکہ مفادات کے امور کو اجاگر کیا گیا۔ 1965 میں صدر ایوب خان کا دورہ چین بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ کسی بھی پاکستانی صدر کا پہلا دورہ تھا جس نے 60 کی دہائی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا ثبوت دیا اور اس کے بعد تقریباً تمام صدور نے چین کا دورہ کیا۔
پاکستان نے 1950 میں جمہوریہ چین کو قبول کیا لیکن سفارتی تعلقات 1951 میں شروع ہوئے۔ پہلی دہائی کے دوران چین پاکستان تعلقات کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا مرحلہ 1951 سے 1954 تک شروع ہوا جس میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور کبھی کبھار سرکاری دوروں میں تعلقات معمولی سطح پر تھے۔ دوسرے مرحلے کا آغاز بنڈونگ کانفرنس کے بعد ہوا جس میں بات چیت اور خیر سگالی کے تبادلے میں اضافہ ہوا ہے۔ سب سے زیادہ جوش و خروش پاکستانی کی بجائے چین کی طرف سے دکھایا گیا۔ تیسرا مرحلہ 1957 سے 1961 کے اوائل تک شروع ہوا جس میں رشتہ داری کا رجحان نیچے کی طرف تھا۔ ابتدا میں پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا اور چین کو کمیونزم کا خطرہ سمجھتا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان سرحد کا تعین نہیں کیا گیا تھا اور چینیوں نے ہنزہ اور گلگت کے بعض علاقوں پر اپنا دعویٰ کیا تھا جو ان کے نقشوں کے ذریعے دکھایا گیا تھا۔
پاکستانی عہدیدار کے بعض بیانات نے دو چین کی حمایت کی جس سے دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہوئے۔ دوسری طرف ہندوستان اور چین کے درمیان تعلقات 50 کی دہائی میں عروج پر تھے کیونکہ دونوں نے بھائی چارے اور باہمی تعاون کو فروغ دیا۔ ناوابستہ تحریک کے دوران ہی بھارت اور چین کے درمیان دوستی دشمنی میں تبدیل ہونے لگی۔ 1961 میں حکومت کی تبدیلی کے بعد امریکہ نے ہندوستان کو زیادہ اہمیت دینا شروع کردی۔ کینیڈی انتظامیہ ہندوستان کو ایک ایسا ملک سمجھتی تھی جو اس خطے میں بڑھتی ہوئی کمیونزم اور چینی طاقت کو روک سکتا تھا۔ پاکستان کو اتحادی ہونے کے باوجود وہی حیثیت نہیں دی گئی اور پاکستانی حکومت کی یہ امیدیں کہ امریکہ بھارت پر دباؤ ڈال کر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی کوشش کرے گا کیونکہ وہ اسے بہت زیادہ امداد فراہم کر رہا تھا، بے سود ثابت ہوئی۔ ہندوستان اپنی غیر وابستہ خارجہ پالیسی کے ذریعے دوسری جنگ عظیم کے بعد بنائے گئے دونوں بلاکس سے فائدہ اٹھا رہا تھا۔ بھارت کے ساتھ امریکہ کے دفاعی معاہدوں کو بھی پاکستان نے اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا۔
یہ وقت تھا کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرے اور غیر ملکی اور غیر ملکی ممالک کے درمیان اپنے خارجہ تعلقات میں توازن برقرار رکھے۔ 1959 میں حکومت پاکستان نے چین کے ساتھ غیر متعینہ سرحد پر مذاکرات کی پیشکش کی۔ تعلقات میں بہتری اس وقت شروع ہوئی جب چین نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے حق میں ووٹ دینے کے بعد ردعمل دیا۔ 1962 میں چین بھارت جنگ نے بھی پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کی بہتری میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ پاکستان کی ہمدردیاں چین کے ساتھ تھیں۔ 1963 میں باؤنڈری کمیشن نے مذاکرات شروع کیے جو کامیاب ثابت ہوئے اور اس کے نتیجے میں سرحدی معاہدہ ہوا۔
اب دونوں ملکوں کی خارجہ پالیسی دوستانہ باہمی تعاون پر مبنی تھی اور صدر ایوب خان کا دورہ چین خیر سگالی کا مظہر تھا۔ اپنے دورے کے دوران انہوں نے چیئرمین لیو شاؤ چی اور وزیر اعظم چو اینلیا سے ملاقات کی۔ 7 مارچ کو ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید تعاون پر مبنی اور دوستانہ مذاکرات کا انعقاد کیا گیا۔ دونوں ممالک اس بات پر قائل تھے کہ اگر ایشیائی اور افریقی ممالک ان دس اصولوں پر عمل کریں جن کا بانڈنگ کانفرنس میں ذکر کیا گیا تھا تو ان کے سماجی نظام میں موجود اختلافات کے باوجود باہمی تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ ان اصولوں کی اہمیت پاکستان اور چین کے تعلقات سے ظاہر ہوئی۔ مارچ 1963 کے سرحدی معاہدے میں طے شدہ سرحدی حد بندی کے کام کو پورا کرنے پر دونوں ممالک خوش تھے۔ چین پاکستان سرحدی کمیشن نے خود کو اس کام کے لیے قابل ثابت کیا جس سے دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات میں اضافہ ہوگا۔ دونوں ممالک کا خیال تھا کہ سیاسی آزادی حاصل کرنے کے لیے سب سے اہم شرط افریقی اور ایشیائی ممالک کی اقتصادی ترقی ہے۔
دونوں ممالک نے ثقافتی تعاون پر زور دیا۔ دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ نسلی امتیاز، سامراج اور استعمار کسی بھی ملک کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہیں اس لیے پرامن دنیا کے لیے ان رکاوٹوں کو دور کیا جانا چاہیے۔ ایشیائی افریقی یکجہتی ان کو ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ وہ جنوب مشرقی ایشیا میں جوہری ہتھیار بنانے کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ اس سے بڑے پیمانے پر تباہی کا خطرہ بڑھ جائے گا اور ان جوہری ہتھیاروں کی ممانعت پر زور دیا۔ دونوں ممالک نے امید ظاہر کی کہ خطے میں امن قائم کرنے کے لیے مستقبل میں مذاکرات کے ذریعے چین بھارت سرحدی تصفیے کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ صدر ایوب نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ کو چین کو تسلیم کرنا چاہیے اور دو چین کا منصوبہ ترک کرنا چاہیے۔ دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ حل نہ ہونے والا مسئلہ کشمیر امن کے لیے بڑا خطرہ ہے اور اقوام متحدہ اسے کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرے۔ صدر ایوب نے چینی چیئرمین کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی جسے خوش دلی سے قبول کر لیا گیا۔ 9 مارچ 1965 کو چین سے واپسی پر وہ دورے کے دوران ہونے والی پیش رفت سے بہت مطمئن تھے۔
یہ دورہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں انتہائی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ پاکستان نے چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا آغاز کیا تھا۔ یہ دوستانہ رشتہ آنے والے سالوں میں بہت مددگار ثابت ہوا کیونکہ چین ہر موسم کا دوست بن گیا۔ چین نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کرکے مخلص دوست ہونے کا ثبوت دیا۔