خواتین کے لیے تعلیم
مرد، عورت زندگی کی دوڑ میں برابر کے شریک ہیں. دونوں کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے. عورتوں کے لیے تعلیم اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ وہ تربیت اور پرورش کا پہلا گہوارہ ہے. آج کل کے دور میں تعلیم یافتہ عورت ہی بچوں کی اچھی پرورش اور تربیت کر سکتی ہے. اسلام میں بھی عورت کی تعلیم کو فروغ دیا ہے. مرد اور عورت دونوں پر تعلیم حاصل کرنا لازم ہے.
ایک تعلیم یافتہ، سلیقہ شعار، اور شائستہ عورت نئ نسل کو مہذب، با ادب اور با صلاحیت بنا سکتی ہے. ماں کی عادات و اطوار سوچ اور تصورات بچوں کی زندگی پر گہرا اثر ڈالتے ہیں. تعلیم یافتہ ماں اپنے بچوں کو تعلیم دلاتی ہے. ان کے دل و دماغ میں روشن خیالی ڈالتی ہے. انہیں دنیا میں نیک اور باعث فخر کام کرنے کی صلاحیت اجاگر کرتی ہے.پاکستان میں خواتین کی آبادی کا تناسب تقریباً نصف ہے. تعلیم کے لحاظ سے عورتوں کی حالت بہت غیر تسلی بخش ہے. (2000) یونیسیف رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین کی شرح خواندگی پرائمری سطح پر ٪62 اور سیکنڈری سطح پر ٪17 ہے. خواتین کی شرح خواندگی مجموعی طور پر 30 فیصد ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتوں کے لیے سکول اور تعلیمی اداروں کی عدم موجودگی ہے. سہولتوں کا فقدان، معاشرتی رکاوٹیں اور مشکلات ہونے کی وجہ سے عورتوں میں تعلیم حاصل کرنے کی خواہش بھی کم ہے. ھمارے معاشرے میں عورتوں کو تعلیم دلانا، انہیں ملازمت کروانا اور زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کروانا معیوب سمجھا جاتا ہے. جو عورتیں اس معاشرے سے لڑ کر تعلیم حاصل کر لیتی ہیں تو ان کے لیے ملازمت اور کام کرنے کے مواقع بہت کم ہیں.
اس وقت مختلف ادارے اور ایجنسیاں عورتوں کی تعلیم اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے کام کر رہی ہیں. مرکزی حکومت نے عورتوں کی فلاح و بہبود اور عورتوں کے حقوق کی حفاظت کرنے کے لیے ایک الگ ڈویژن قائم کیا ہے جس کا نام وومن ڈویژن ہے. ان کا کام ہی عورتوں کی فلاح و بہبود کے لئے مختلف منصوبے بنانا اور ان پر عمل کرنا اور کروانا ہے.