ابراہیم بن ادھم بلخ شہر کے سلطان کے بیٹے تھے ۔ دن گزرتے گئے اور وہ نئے سلطان بن گئے۔وہ امیر تھے خریداری کرنا پسند تھا۔خود کھانا دوسروں کو کھلانا، ضیافت کرنا ، شکار کرنا ، قیمتی جانور پالنا اور سوناچاندی دنیا کی جو بھی چیز تھی اس کی شہوت تھی انہیں۔ان کی عقل کہتی تھی کہ وہ سب کچھ حاصل کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ انہیں کسی قسم کی کمی نہیں تھی سب کچھ ہر اعتبار سے مکمل تھا مگر ان کے اندر ایک خلا تھا ایک تاریک خلا جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید گہرا ہوتا گیا۔ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی بے قراری بڑھتی گئی۔ایک دن محل میں انہوں نے بہت بڑی دعوت کی ۔اچانک ایک دیو جیسی جسامت رکھنے والا آدمی محل میں داخل ہوا۔نہ کسی سپاہی نے، نہ خدمت گار نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو یہاں کیا کر رہے ہو؟کسی میں ہمت ہی نہیں تھی۔
ابراہیم بن ادھم نے پوچھا “کیا چاہتے ہو؟”
“میں کچھ دن اس سرائے میں رکنا چاہتا ہوں”اس نے کہا-
ابراہیم بن ادھم نے اسے عجیب انداز سے دیکھا اور سوچا کہ شاید کوئی دیوانہ ہے۔
انہوں نے اس آدمی سے کہا “تم ہوش میں تو ہو ٬ اے انسان؟یہ سرائے ہے کیا ؟یہ تو میرا محل ہے کیا تمہیں نظر نہیں آتا؟”
وہ آدمی انہیں دیکھتا رہا اور پھر ہنستے ہوئے کہنے لگا
“ذرا مجھے دیوانہ کہنے والے کو تو دیکھو اصل دیوانے ہیں تو آپ خود ہیں جناب- ٹھیک ہے یہ سرائے نہیں محل ہی سہی مگر آپ کا محل کیسے ہوا؟”
“میرے بابا میرے لیے چھوڑ کر گئے تھے” ابراہیم بن ادھم نے جواب دیا –
وہ شخص بولا “اچھا تو پھر یہ بتائیے آپ کے بابا سے پہلے یہ کس کا تھا؟”
“میرے دادا کا تھا”ابراہیم بن ادھم نے جواب دیا
“اور ان سے پہلے کس کا تھا؟” اس شخص نے دوبارہ پوچھا-
“فلاں شخص کے پاس تھا”سلطان ابراہیم بولے
“اور اس فلاں شخص سے پہلے کس کا تھا؟” اس شخص نے سوال کیا۔
“اسے اس کے بابا نے دیا ہوگا” سلطان ابراہیم نے پھر جواب دیا۔
“اچھا ٹھیک ہے تو یہ بتائیے کہ ان سب کے ساتھ کیا ہوا؟وہ سب کہاں چلے گئے؟”اس آدمی نے مسکراتے ہوئے پوچھا-
“وہ مر گئے” ابراہیم بن ادھم بولے۔
“اچھا یہ تمہارا محل کیسے ہوا جب اس میں اتنے لوگ رہے اور چلے گئے؟” اس آدمی نے حیرانگی سے پوچھا –
یہ سوال سنتے ہی ابراہیم بن ادھم خاموش رہ گئے کیونکہ ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا- یہ الفاظ کہنے کے بعد وہ اجنبی جیسے آیا تھا ویسے ہی چلا گیا۔
ابراہیم بن ادھم کی زندگی پر اس واقعے کا بہت گہرا اثر ہوا ۔ انہوں نے اپنی سلطنت ایک موزوں شخص کے حوالے کی اور اپنی بقیہ زندگی کو دین کے لیے وقف کر دیا –
اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان ایک عارضی مدت کے لیے آیا ہے اور کچھ بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے ۔ انسان کو اس زندگی میں مال و دولت ، جائیداد یا عہدہ جو بھی ملے سب اللّہ کی امانت ہیں اور یہ سب یہیں چھوڑ کر چلے جانا ہے۔ ضرورت ہے تو اس امر کی کہ ہم اپنی زندگی کو کیسے گزارتے ہیں کیونکہ یہی کامیابی کا راز ہے۔
دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو دنیا و آخرت میں کامیاب کرے۔ آمین