دور حاضر میں تعلیم بہت عام ہو چکی ہے مگر اس کے باوجود بھی ہمیں اپنی نوجوان نسل کا ایک بہت بڑا حصہ بے روزگار اور پریشان نظر آتا ہے۔ والدین اپنے بچوں پر لاکھوں روپے لگا کر مہنگی سے مہنگی تعلیم دینے کے بعد بھی آخر میں مایوس اور ناامید نظر آتے ہیں۔ آخر اس پریشانی کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟ اس بات کو جاننے کی اشد ضرورت ہے – آئیے ان میں سے چند اہم وجوہات پر مختصراور آسان سا جائزہ لیتے ہیں جو آپ کو زندگی میں بہت کام آسکتی ہیں۔ 1- بھیڑچال کی کیفیت موجودہ دور میں نوجوان لوگوں کی معاشی ناکامی کی ایک اہم وجہ بھیڑچال کی کیفیت ہے۔ جی ہاں بھیڑچال- ہم میں سے اکثر سے جب پوچھا جاتا ہے کہ آپ نے فلاں پروگرام میں داخلہ کیوں لیا تو وہ کہتا ہے کہ میری فیملی میں پہلے اتنے لوگ اسی گروپ میں کامیاب ہیں، یا فلاں دوست جارہا تھا تو میں نے بھی لے لیا۔ حالانکہ یہ ایک غلط طریقہ ہے۔ ہمیں اپنی زندگی میں خود فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے۔ 2- آخری لمحے فیصلہ کرنا ناکامی کی ایک بہت بڑی وجہ آخری وقت میں فیصلہ کرنا ہے۔ ذرا سوچیں، ہم نے دوسرے شہر جانا ہو تو کتنے دن پہلے سوچنا اور سامان باندھنا شروع کر دیتے ہیں۔ کیا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ منزل کا فیصلہ ہم اڈے پر پہنچ کر پھر کریں۔ ایسا نہیں ہوتا نا؟ ہو بھی کیسے سکتا ہے کیونکہ ہم تو خود کو بڑے سمجھداروں کی فہرست میں شامل کرتے ہیں۔ اچھا تو بتائیں پھر؟ ایک چھوٹے سے سفر کا تعین آخری لمحے میں نہیں ہو سکتا تو ہم اپنی زندگی میں کچھ بننے کا فیصلہ بالکل آخر میں امتحانات کے رزلٹ کے بعد کیسے کر سکتے ہیں؟ اگر ایسا کریں گے تو یہ ہمیں ناکامی کی طرف لے جائے گا۔ اپنے مستقبل میں کچھ کرنے کا فیصلہ کرنے کے لیے بہت پہلے سے یہ سوچنا ضروری ہے۔ 3- سیلابی کیفیت آپ حیران ہو رہے ہونگے کہ اس وجہ کو یہاں کیسے شامل کیا؟ جی بالکل، یہ سیلاب پانی کا نہیں بلکہ ہمارے نوجوان طلباء کا ہے جو ہر بار سکوپ کو دیکھ کر کسی ایک پروگرام میں امڈ آتا ہے۔ بہت سارے طلباء صرف یہ سوچ کر کسی ایک پروگرام میں داخلہ لے لیتے ہیں کیونکہ اس فیلڈ کے لوگوں کی آمدنی بہت زیادہ ہے یا اس فیلڈ کے لوگ ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ کامیاب ہیں۔اور پھر جب طلباء کی ایک بہت بڑی تعداد ویاں جاتی ہے تو سب کے لیے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ، چند سال پہلے طلباء کی ایک بڑی تعداد انجنئیرنگ کی فیلڈ میں جارہی تھی – کچھ کاروباری افراد نے تو طلباء کا انجنیئرنگ کی طرف آتا سیلاب دیکھ کر انجنیرنگ یونیورسٹیاں بنا لیں اور اس میں لوکل کالجوں سے بھی کم سہولیات تھیں پھر بھی اس سیلابی ریلے کے باعث انہوں نے بہت پیسہ کمایا۔ مگر نقصان تقریبا اس سارے ریلے کا ہوا- آج کل ان میں سے بیشتر طلباء بے روزگاری کے مسائل سے دوچار ہیں۔ موجودہ دور میں وہی حال میڈیکل کے طلباء کا ہے۔ حالانکہ یہ وہ ریلا ہوتا ہے جس میں ذہین ترین لوگ شامل ہوتے ہیں مگر پھر بھی تعداد زیادہ ہونے کے باعث مستقبل قریب میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتاہے- 4- ملازمت کی خواہش اور انتظار ہمارے ملک میں طلباء کی ایک بڑی تعداد یہ سوچ کر تعلیم حاصل کرتی ہے کہ تعلیم کے فورا بعد ایک بہت ہی اچھی جاب ان کا انتظار کر رہی ہو گی – یہ سوچنا سراسر غلط ہے، کیونکہ ہر ملک میں ملازمتیں ایک محدود تعداد میں ہوتی ہیں چاہے وہ جتنا ہی ترقی یافتہ ہو۔ طباء کو چاہیے کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ فضول سرگرمیوں پر اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے کسی بھی ہنر کو سیکھنے کا کسی چھوٹے کاروبار کو وقت دیں کیونکہ ایسا کرنے سے جب ان کی تعلیم مکمل ہو گی تو ان کے پاس تجربہ اور سرمایہ دونوں مناسب حد تک ہوں گے اور وہ اپنی بقیہ زندگی کا صحیح فیصلہ کر سکیں گے۔ آپ معاشی لحاظ سے کامیاب ملکوں کی فہرست اٹھا کر ان کا جائزہ لے کے دیکھ لیں جیسا کہ چائنہ، امریکہ اور جاپان وغیرہ وہاں ملازم افراد سے زیادہ ہنر مند اور کاروباری افراد کی شرح زیادہ نظر آئے گی۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ ملک پر بوجھ ڈالنے کی بجائے برآمدات میں اضافے اور زرمبادلہ کمانے کا باعث بنتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ایسے ملکوں میں لوگوں کا زیادہ انحصار اپنے وسائل پر ہے اور اس کے نتیجہ میں ملکی سرمایہ درآمدات پر خرچ ہونے کی بجائے اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود پر ہوتا ہے۔ 5- تعلیمی نصاب میں پلاننگ کا ہونا طلباء کی معاشی ناکامی کی ایک اہم وجہ تعلیمی نصاب میں پلاننگ کا فقدان ہے۔ پلاننگ سے مراد یہاں یہ ہے کہ گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کی سطح پر تعلیمی اداروں کو نصاب میں یہ چیز لازمی شامل کرنی چاییے کہ طلباء اپنی معاشی زندگی میں کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟: کسی بھی کاروبار یا ملازمت کے لیے کیسے بہتر انداز میں محنت کی جاسکتی ہے؟ بہت سے قابل طلباء کو بھی اس بات کا پتہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی زندگی کو صرف تعلیم کی حد تک صرف کر چکے ہوتے ہیں۔ انہیں اس بات کا بالکل بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں، یا وہ کسی خاص کاروبار یا ملازمت کے لیے کیسے مؤثر جدوجہد کی ضرورت ہے۔ امید ہے یہ تحریر آپ کو پسند آئی ہوگی اس کے حوالے سے ہمیں اپنی قیمتی رائے سے آگاہ ضرور کیجیے گا۔ شکریہ
“ماں ہمارا دوسرا بھائی کب مرے گا” چار سالہ چھوٹی سی بچی نے روتے ہوئے اپنی والدہ سے پوچھا۔”یہ تم کیا کہہ رہی ہو کم عقل ، تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا؟” ماں نے غصے سے لال پیلا ہو کر بیٹی کو گھورتے ہوئے کہا۔”بہنیں تو اپنے بھائیوں پر جان بھی دے دیتی ہیں اور تم ہو کہ اپنے بھائی کے مرنے کا سوال کر رہی ہو” ماں بولییتیم معصوم بچی نے مایوسی کے انداز میں پھر سے کہا “ماں کچھ عرصہ پہلے جب بڑے بھائی کا ایکسیڈنٹ کے بعد انتقال ہوا تھا تو سب آئے تھے- محلے والوں نے پورے تین دن کھانا بھی دیا تھا اور مجھے بھی اپنے گھر لے گئے تھے۔ سب نے اتنا پیار دیا اور ترس کھایا تھا- ہم ان دنوں کبھی بھی بھوک سے نہیں سوئے تھے – اب تو اتنا عرصہ گزر گیا ہے مگر کوئی آیا بھی نہیں۔ اتنے دن سے آپ بیمار ہیں اور ہم روز بھوکے سوتے ہیں، پھر بھی کوئی نہیں آیا۔ دوسرا بھائی مر جائے تو شاید پھر سے سب آ جائیں ۔ آپ کے پاس بھی دوائیوں کے پیسے آجائیں گے اور ہمیں کھانا بھی مل جائے گا۔ سب پیار بھی کریں گے”ماں نے جب معصوم بچی کے یہ الفاظ سنے تو اس کا کلیجہ پھٹ سا گیا۔ اس نے اپنی ننھی سی جان کو گلے سے لگایا اور پھر آنسوؤں کو اپنی آنکھوں میں ضبط کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولی “بیٹی، وہ سب عارضی تھا- کیونکہ انسان کسی دوسرے انسان کی زیادہ دیر تک مدد نہیں کر سکتا، وہ تھک جاتا ہے- صرف اللہ کی ذات ہے جو انسان کو بہت نوازتی ہے اور کبھی نہیں تھکتی – اس لیے تم دوبارہ سے اپنے دوسرے بھائی کے بارے میں ایسا کبھی نہ سوچنا کیونکہ ایسا کرنے پر بھی ایک مختصر وقت کے بعد کوئی ہم سے پوچھنے نہیں آئے گا- بس تم دعا کرو کہ اللہ پاک ہمیں اس آزمائش سے نکالیں” اس چھوٹی سی حکایت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بحیثیت انسان ہمیں اپنے آس پاس کے تمام لوگوں کا خیال رکھنا چاہیے کیونکہ روز محشر ہم سے ان کے بارے میں سوال ہو گا- حدیث میں آتا ہے کہ اللہ پاک قیامت کے دن اپنے بندے سے پوچھے گا اے ابن آدم، میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا- بندہ کہے گا یا رب آپ تو خود سارے جہان کے مالک ہیں، آپ کو کیسے کھلاتا۔ اللہ پاک فرمائیں گے “میرا فلاں بندہ بھوکا تھا، اگر تو اس کو کچھ کھلا دیتا تو مجھے وہاں پالیتا”- ہم خود تو روزانہ پیٹ بھر کے طرح طرح کے کھانے کھا لیتے ہیں مگر ہمارے ارد گرد لوگ کس تنگ دستی کا شکار ہیں اس کا ہمیں وہم وگمان تک نہیں۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے عجب رسم ہے چارہ گروں کی لگا کے زخم نمک سے مساج کرتے ہیں غریب شہر ترستا ہے اک نوالے کو امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں Also Read: https://newzflex.com/32002 اللہ سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو راہ راست پر لائے، تنگ دستی کی زندگی گزارنے والے بے سہارا افراد کی مدد کرنے کی تو فیق دے اور دنیاوآخرت میں کامیاب کرے- آمین اس تحریر سے متعلق اپنی قیمتی رائے ضرور دیجیے گا۔ شکریہ
پچھلے چند ماہ سے یہ بات دیکھنے میں آ رہی ہے کہ پرائیویٹ نظام پر کرونا کے سب سے زیادہ اثرات پڑے ہیں۔بظاہر تو اس بات کو کافی حد تک سچ مانا جا سکتا ہے ہے لیکن اگر الزام صرف اور صرف حکومت پر دیا جائے جائے تو یہ ایک بہت بڑی بے وقوفی ہوگی۔ اس کی پہلی اور اہم وجہ یہ ہے ہے کہ کرونا ایک عالمی وباء ہے اور اس میں حکومت کا کا کوئی عمل دخل نہیں۔بے شک حکومت اس وبا کی روک تھام کے لیے لئے کوشش ضرور کر سکتی ہے لیکن اس میں سب سے بڑا کردار انسان کا اپنا انفرادی عمل ہے۔ اگر ہم کہیں کہ کرونا کی وجہ سے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین متاثر ہوئے ہیں تو یہ بات بالکل سچ ہے لیکن اس میں حکومت سے کہیں زیادہ قصور ان اداروں کے مالکان کا ہے جو اب مافیا بن چکا ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کی حمایت سے ہٹ کر اس بات کو مثبت انداز میں بالکل نیوٹرل ہو کر سوچا جائے تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ اس میں سب سے بڑا قصور ان مالکان کا ہے جن کا رویہ اب کسی ظالم سے کم نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایک چھوٹے سے کرائے کے گھروں سے اپنے سکولوں اور کالجوں کا آغاز کیا۔ طلباء سے سارا سال مہنگی فیسیں لے کر محدود سطح پر وسائل دئیے ۔ خود پرانی موٹر سائیکل سے گاڑیوں پر آگئے۔ اپنے گھروں کو بڑی بڑی کوٹھیوں میں بدل دیا۔ یہ وہ طبقہ ہے کہ اگر خدانخواستہ کرونا اگلے سال بھی رہ گیا تب بھی ان کے بنک خالی نہیں ہونے والے کیونکہ انہوں نے اپنے خاندان میں کئی لوگوں کے نام آڈٹ سے بچنے کے لیے اکاؤنٹ کھلوائے ہوئے ہیں اور سب سے بڑی شرمندگی کی بات یہ ہے کہ یہ اس سب سرمایہ کو اپنا حق اور رزق حلال سمجھتے رہے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے اپنے اداروں میں تقریباً سب ملازمین کی تنخواہ کسی مزدور کی ایک اوسط تنخواہ سے بھی کم رکھی ہوئ ہے اور خود علاقے کے سرداروں کی طرح ایک شاہانہ زندگی کی عادت ڈالے ہوئے ہیں۔ یہ وہ مافیا ہے جو اپنے اداروں میں بیشتر اساتذہ اور ملازمین کو وزٹنگ پر صرف اس لیے رکھتے ہیں تاکہ تعطیلات کے دوران انہیں عملے کو کچھ دینا نہ پڑے مگر اس کے باوجود وہ طلباء سے چھٹیوں کی پوری پوری فیس وصول کرتے ہیں۔ اور مزید یہ کہ یہ ادارے اتنی کم تنخواہ دینے کے باوجود بھی اس میں سے سیکیورٹی کی رقم کاٹنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور جب کبھی کسی ملازمین کو اطلاع دے کر چھوڑنا بھی پڑ جائے تو وہ رقم اول تو ملتی نہیں، اگر ملتی ہے تو پھر بہت زیادہ اثرورسوخ کے بعد اور بہت بار ادارے کے چکر لگانے کے بعد یعنی کئی بااثر لوگوں کی فون کال کروانے کے بعد یا ان کو لیبر کورٹس میں دھکیلنے کے بعد – ایسے بہت سے اداروں میں کچھ ایسے بھی محنتی ملازمین ہیں جنہوں نے اس ادارے کو اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ دے دیا ہے مگر ان ہنگامی حالات کے اندر یہ مافیا ان کو بھی مدد کرنے سے پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔ جہاں دنیا کے بیشتر ممالک میں مہنگی ترین یونیورسٹیوں نے بھی اپنی فیسوں میں کرونا جیسے حالات کی وجہ سے کمی کی ہے وہاں ہمارے ملک میں موجود اس چھوٹے پرائیویٹ مافیا نے فیسوں میں کمی تو نہیں کی، مگر آن لائن پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہوں میں ضرور خاطرخواہ کمی کر دی ہے اور جب ان سے بات کی جائے کہ تنخواہ کو بڑھائیں تو یہ حکومت وقت کو تین چار گالیاں نکال کر اور حالات کا بہانہ بنا کر ان کو مختصر وقت کے لیے مطمئن کر دیتے ہیں۔ اب بتائیں ان حالات میں قصور کس کا ہے؟؟۔ یہ لوگ کیا ہماری آنے والی نسلوں کی ذمہ داری لیں گے جو اپنے ملازمین کو مکمل سہولیات دینا، مشکل وقت میں مدد کرنا یا ان کو عزت واحترام دینا نہ سمجھتے ہوں۔ اس تحریر کا مقصد ہمارے ملک میں موجود ہر پرائیویٹ تعلیمی ادارے کو بدنام کرنا نہیں ہے بلکہ یہ صرف ان اداروں کے سربراہان کی غوروفکر کے لیے ہے جو اپنے ملازمین کے ساتھ ایسا رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور ایسے اداروں کا علم وہاں کے ملازمین کو بخوبی ہے۔ خداراہ اگر آپ بھی کسی ایسے ادارے میں کام کرتے ہیں تو حکومت وقت کو برا بھلا کہنے کی بجائے اس چھوٹے تعلیمی مافیا کے خلاف جائیں جو نہ صرف آج آپ کو معاشی مشکلات میں دھکیل رہا ہے بلکہ آئندہ ہ آنے والی ہماری نسل کو تربیتی لحاظ سے بہت کھوکھلا کر سکتا ہے۔۔۔۔ والسلام تحریر سے متعلق اپنی قیمتی رائے ضرور دیجیے گا۔ شکریہ
ابراہیم بن ادھم بخارا شہر کے سلطان کے بیٹے تھے ۔ دن گزرتے گئے اور وہ نئے سلطان بن گئے۔وہ امیر تھے خریداری کرنا پسند تھا۔خود کھانا دوسروں کو کھلانا ، ضیافت کرنا ، شکار کرنا ، قیمتی جانور پالنا اور سوناچاندی دنیا کی جو بھی چیز تھی ان کی شہوت تھی انہیں۔ان کی عقل کہتی تھی کہ وہ سب کچھ حاصل کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ انہیں کسی قسم کی کمی نہیں تھی سب کچھ ہر اعتبار سے مکمل تھا مگر ان کے اندر ایک خلا تھا ایک تاریک خلا جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید گہرا ہوتا گیا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی بے قراری بڑھتی گئی۔ایک دن محل میں انہوں نے بہت بڑی دعوت کی ۔اچانک ایک دیو جیسی جسامت رکھنے والا آدمی محل میں داخل ہوا۔نہ کسی سپاہی نے، نہ خدمت گار نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو یہاں کیا کر رہے ہو؟کسی میں ہمت ہی نہیں تھی۔ ابراہیم بن ادھم نے پوچھا “کیا چاہتے ہو؟””میں کچھ دن اس سرائے میں رہنا چاہتا ہوں”اس نے کہا-ابراہیم بن ادھم نے اسے عجیب انداز سے دیکھا اور سوچا کہ شاید کوئی دیوانہ ہے۔انہوں نے اس آدمی سے کہا “تم ہوش میں تو ہو ٬ اے انسان؟یہ سرائے ہے کیا ؟یہ تو میرا محل ہے کیا تمہیں نظر نہیں آتا؟”وہ آدمی انہیں دیکھتا رہا اور پھر ہنستے ہوئے کہنے لگا “ذرا مجھے دیوانہ کہنے والے کو تو دیکھو اصل دیوانے ہیں تو آپ خود ہیں جناب- ٹھیک ہے یہ سرائے نہیں محل ہی سہی مگر آپ کا محل کیسے ہوا؟””میرے بابا میرے لیے چھوڑ کر گئے تھے” ابراہیم بن ادھم نے جواب دیا -وہ شخص بولا “اچھا تو پھر یہ بتائیے آپ کے بابا سے پہلے یہ کس کا تھا؟””میرے دادا کا تھا”ابراہیم بن ادھم نے جواب دیا”اور ان سے پہلے کس کا تھا؟” اس شخص نے دوبارہ پوچھا-“فلاں شخص کے پاس تھا”سلطان ابراہیم بولے”اور اس فلاں شخص سے پہلے کس کا تھا؟” اس شخص نے سوال کیا۔”اسے اس کے بابا نے دیا ہوگا” سلطان ابراہیم نے پھر جواب دیا۔”اچھا ٹھیک ہے تو یہ بتائیے کہ ان سب کے ساتھ کیا ہوا؟وہ سب کہاں چلے گئے؟”اس آدمی نے مسکراتے ہوئے پوچھا- “وہ مر گئے” ابراہیم بن ادھم بولے۔”اچھا یہ تمہارا محل کیسے ہوا جب اس میں اتنے لوگ رہے اور چلے گئے؟” اس آدمی نے حیرانگی سے پوچھا -یہ سوال سنتے ہی ابراہیم بن ادھم خاموش رہ گئے کیونکہ ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا- یہ الفاظ کہنے کے بعد وہ اجنبی جیسے آیا تھا ویسے ہی چلا گیا۔ ابراہیم بن ادھم کی زندگی پر اس واقعے کا بہت گہرا اثر ہوا ۔ انہوں نے اپنی سلطنت ایک موزوں شخص کے حوالے کی اور اپنی بقیہ زندگی کو دین کے لیے وقف کر دیا -اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان ایک عارضی مدت کے لیے آیا ہے اور کچھ بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے ۔ انسان کو اس زندگی میں مال و دولت ، جائیداد یا عہدہ جو بھی ملے سب اللّہ کی امانت ہیں اور یہ سب یہیں چھوڑ کر چلے جانا ہے۔ ضرورت ہے تو اس امر کی کہ ہم اپنی زندگی کو کیسے گزارتے ہیں کیونکہ یہی کامیابی کا راز ہے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو دنیا و آخرت میں کامیاب کرے۔ آمین
ابراہیم بن ادھم بلخ شہر کے سلطان کے بیٹے تھے ۔ دن گزرتے گئے اور وہ نئے سلطان بن گئے۔وہ امیر تھے خریداری کرنا پسند تھا۔خود کھانا دوسروں کو کھلانا، ضیافت کرنا ، شکار کرنا ، قیمتی جانور پالنا اور سوناچاندی دنیا کی جو بھی چیز تھی اس کی شہوت تھی انہیں۔ان کی عقل کہتی تھی کہ وہ سب کچھ حاصل کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ انہیں کسی قسم کی کمی نہیں تھی سب کچھ ہر اعتبار سے مکمل تھا مگر ان کے اندر ایک خلا تھا ایک تاریک خلا جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید گہرا ہوتا گیا۔ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی بے قراری بڑھتی گئی۔ایک دن محل میں انہوں نے بہت بڑی دعوت کی ۔اچانک ایک دیو جیسی جسامت رکھنے والا آدمی محل میں داخل ہوا۔نہ کسی سپاہی نے، نہ خدمت گار نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو یہاں کیا کر رہے ہو؟کسی میں ہمت ہی نہیں تھی۔ ابراہیم بن ادھم نے پوچھا “کیا چاہتے ہو؟” “میں کچھ دن اس سرائے میں رکنا چاہتا ہوں”اس نے کہا- ابراہیم بن ادھم نے اسے عجیب انداز سے دیکھا اور سوچا کہ شاید کوئی دیوانہ ہے۔ انہوں نے اس آدمی سے کہا “تم ہوش میں تو ہو ٬ اے انسان؟یہ سرائے ہے کیا ؟یہ تو میرا محل ہے کیا تمہیں نظر نہیں آتا؟” وہ آدمی انہیں دیکھتا رہا اور پھر ہنستے ہوئے کہنے لگا “ذرا مجھے دیوانہ کہنے والے کو تو دیکھو اصل دیوانے ہیں تو آپ خود ہیں جناب- ٹھیک ہے یہ سرائے نہیں محل ہی سہی مگر آپ کا محل کیسے ہوا؟” “میرے بابا میرے لیے چھوڑ کر گئے تھے” ابراہیم بن ادھم نے جواب دیا – وہ شخص بولا “اچھا تو پھر یہ بتائیے آپ کے بابا سے پہلے یہ کس کا تھا؟” “میرے دادا کا تھا”ابراہیم بن ادھم نے جواب دیا “اور ان سے پہلے کس کا تھا؟” اس شخص نے دوبارہ پوچھا- “فلاں شخص کے پاس تھا”سلطان ابراہیم بولے “اور اس فلاں شخص سے پہلے کس کا تھا؟” اس شخص نے سوال کیا۔ “اسے اس کے بابا نے دیا ہوگا” سلطان ابراہیم نے پھر جواب دیا۔ “اچھا ٹھیک ہے تو یہ بتائیے کہ ان سب کے ساتھ کیا ہوا؟وہ سب کہاں چلے گئے؟”اس آدمی نے مسکراتے ہوئے پوچھا- “وہ مر گئے” ابراہیم بن ادھم بولے۔ “اچھا یہ تمہارا محل کیسے ہوا جب اس میں اتنے لوگ رہے اور چلے گئے؟” اس آدمی نے حیرانگی سے پوچھا – یہ سوال سنتے ہی ابراہیم بن ادھم خاموش رہ گئے کیونکہ ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا- یہ الفاظ کہنے کے بعد وہ اجنبی جیسے آیا تھا ویسے ہی چلا گیا۔ ابراہیم بن ادھم کی زندگی پر اس واقعے کا بہت گہرا اثر ہوا ۔ انہوں نے اپنی سلطنت ایک موزوں شخص کے حوالے کی اور اپنی بقیہ زندگی کو دین کے لیے وقف کر دیا – اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان ایک عارضی مدت کے لیے آیا ہے اور کچھ بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے ۔ انسان کو اس زندگی میں مال و دولت ، جائیداد یا عہدہ جو بھی ملے سب اللّہ کی امانت ہیں اور یہ سب یہیں چھوڑ کر چلے جانا ہے۔ ضرورت ہے تو اس امر کی کہ ہم اپنی زندگی کو کیسے گزارتے ہیں کیونکہ یہی کامیابی کا راز ہے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو دنیا و آخرت میں کامیاب کرے۔ آمین