نجی تعلیمی اداروں کا چڑھتا سورج۔۔—شہر بڑے ہوں یا چھوٹے یہاں تک کہ گاٶں میں آپکو جگہ جگہ بڑے خوبصورت بورڈ اور بینرز آویزاں نظر آٸیں گے۔۔اور آپ قاٸل ہو جاٸیں گے آجکا منافع بخش کاروبار اگر کوٸی ہے تو بس یہی ہے۔اس کاروبار کی شرح کم یا زیادہ تو ہو سکتی ہے مگر خسارہ ناممکن ہے.
پہلے ادوار میں بچوں کے والدین معمولی فیس داخلہ کے عوض بچے اسکول میں داخل کروا دیا کرتے تھے ماہانا فیس بھی واجبی سی ہوتی تھی جو والدین باآسانی بھر لیا کرتے تھے۔۔پھر کٸی اسکول والے اللہ کی رضا کے لٸیے غریب بچوں کی فیس معاف کر دیتے تھے۔دو سے زاٸد ایک گھر کے بچے ہونے کی صورت میں ایک کی آدھی اور ایک کی فیس معاف ہو جایا کرتی تھی۔ہر بچہ اپنی تعلیم بغیر کسی پریشانی کے جاری رکھتا تھا۔مگر آج جب نجی تعلیمی ادارے میں قدم رکھو تو پہلے وزٹ پر ہی تارے نظر آجاتے ہیں۔کتابیں مہنگی ترین۔یونیفارم الگ اور داخلہ فیس کی منہ پھاڑ مانگ پھر مختلف فنڈز کے نام پر پیسے بٹورنا انکا وطیرہ بن چکا ہے۔۔بس کسر یہ رہ گٸی ہے آٹا بھی اسکول والے فراہم کریں اور کہیں یہ آپکے گھر سے زیادہ معیاری ہے.
پھر آجاٸیں تعلیم کے ساتھ تربیت—-۔تربیت کے نام پر بس منہ ٹیڑھا کر کے انگلش بولنا سکھایا جاتا ہے اور بس۔۔اعتماد پیدا کرتے کرتے اتنا اعتماد پیدا کر دیا جاتا ہے کہ وہ بڑے اعتماد سے بڑے بزرگوں کو جواب دیتا ہے بدتمیزی کرتا ہے۔مزاق میں جگت بازی کرتا ہے۔۔اور والدین خوش ہوتے ہیں اسکول نے بچے کو پراعتماد بنا دیا ہے اب ہمارا بچہ شرم نہیں کرتا۔۔پھر بچے کا دماغ یہ ہوتا ہے وہ خود کو آسمانی مخلوق سمجتا ہے دوسرے بچوں میں خود کو نمایاں رکھنا چاہتا ہےوالدین بھی اس بات کے زکر سے خوش ہوتے ہیں ہمارا بچہ زیادہ اچھے اور مہنگے ترین اسکول میں زیر تعلیم ہے۔۔آجکل کرونا وبا کی بدولت نجی اسکول مالکان کے وارے نیارٕے یوں سمجھ لیں پانچوں انگلیاں گھی میں سر کڑھاٸی میں ہے..کرونا کی وجہ سے جہاں سب پریشان ہےاگر کاروبار بند ہیں۔۔کسی کی آمدنی پر فرق پڑا ہےمگر یہ نجی ادارے کسی طور وبا کا نقصان اپنے سر لینے کو تیار نظر نہیں آتے۔۔ان کا مطالبہ ہے چوری کرو ڈاکہ ڈالو۔۔مدفون خزانے کھوجو ہمارا بھرنا پورا بھرو۔۔چاہے ہم نے نہیں پڑھایا اسکول بند تھا۔بچوں کے والدین سے پوری فیسیں لینے کے بعد اساتزہ کو آدھی پونی تنخواہ دے دی جاتی ہے۔اور یہاں باور کروایا جاتا ہے۔۔جی چولہا نہیں بجھنے دینا۔۔
ہا ۓ ۔۔خوشی سے مر نہ جاتے جو تیرا اعتبار ہوتا
حکومت وقت سے گزارش ہے کہ یہ اندھی کماٸی کے اڈے یا تو بند کیٸے جاٸیں۔۔یا پھر ان پر معقول پابندیاں لگاٸیں جاٸیں تاکہ یہ کسی حد میں رہ کر عوام کم سے کم لوٹ سکیں.