کورونا وائرس اور ہمارا تعلیمی نظام
تحریر اجمل خام
پچھلے تقریباً ایک سال تین ماہ سے دنیا کے مختلف ممالک میں کورونا وائرس سے ہونے والی تباہ کاریاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کروڑوں انسان لقمہءِ اجل بن چکے اور لاکھوں تاحال بنتے چلے جا رہے ہیں اور ہزاروں لوگ زندگی اور موت کی کشمکش میں اپنی زندگی کے بقیہ ایام گننے میں مصروف ہیں حال ہی میں ہمارے ہمسایہ دُشمن ملک بھارت میں جاری کورونا کی خوفناک تباہ کاریوں سے دنیا بھر کے لوگوں کے دل دہل گئے ہزاروں لوگ جگہ کی کمی کے باعث سڑکوں اور فٹ پاتھ وغیرہ پہ تڑپتے بلکتے دیکھے جا رہے ہیں اور اب تک لاکھوں لوگوں کو کورونا وائرس نگل چکا ہے.
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بھی کورونا نے جس طرح سے تباہی مچائی بلکہ اسکی تیسری لہر جسطرح سے تباہی مچا رہی ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے کتنے لاکھ لوگ اس کا شکار بن چکے اور سینکڑوں کی تعداد میں اپنی جان ہتھیلی پہ رکھے اس کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں میرے سمیت پاکستان میں موجود ہزاروں لوگ جو کورونا وائرس کو اب تک مذاق سمجھ رہے تھے اس تیسری لہر کو دیکھ کر یہ ماننے پہ مجبور ہو گئے کہ واقعی کورونا وائرس کا وجود ہے کیونکہ اب کورونا وائرس نہ صرف شہروں بلکہ دیہات میں بھی اپنے پنجے گاڑھنے لگا آئے دن کیسز میں بتدریج اضافہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کورونا وائرس مذاق نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے اگر اس کی تباہ کاریوں کا ذکر کیا جائے تو وہ اس قدر طویل ہیں کہ ان سب کو احاطہءِ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا کاروباری و تجارتی مراکز ، دفاتر ، مارکیٹس ، منڈیاں ، بازار ، مزدور طبقہ ، دیہاڑی دار وغیرہ تقریباً ہر شعبہ ہائے زندگی کورونا کی زد میں آئے کورونا وائرس نے جہاں ہر قسم کے معمولاتِ زندگی کو مفلوج کیا وہاں اس کی وجہ سے جو اہم ترین نظام بُری طرح سے متاثر ہوا وہ نظامِ تعلیم ہے اس حقیقت سے انحراف ممکن ہی نہیں کہ تعلیمی نظام ایک بہترین صحتمند اور خوشحال معاشرے کا سب سے اہم ستون ہے یا اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ایک بہترین اور خوشحال معاشرہ تعلیمی نظام کا مرہونِ منت ہے اور اسی کے تحت ایک معاشرے کی ساکھ برقرار رہ سکتی ہے ہم مانیں یا نہ مانیں ہمارا نظامِ تعلیم جو کہ پہلے ہی اس لیول کا نہیں اوپر سے کورونا جیسی خطرناک وباء نے اسے بہت بُری طرح نقصان پہنچایا ہمارے بچوں کی بُنیاد ہی خراب ہو چکی ہے اور وہ وقت دور نہیں جب ان بچوں کے ہاتھوں میں بڑی بڑی ڈگریاں تو ضرور ہوں گی مگر یہ بچے علم سے بالکل بھی بہرہ ور نہیں ہوں گے.
ان کی اخلاقیات حد سے زیادہ گری ہوئی ہوں گی ان میں وہ صلاحیتیں دم توڑ چکی ہوں گی جو کہ دنیا میں ان کی پہچان بنتیں اور وہ ملک و قوم کی خدمت کر کے ایک باوقار شہری بن سکتے اور دنیا میں اپنا لوہا منواتے اب اس بنیاد کے خراب ہونے کا خمیازہ کتنی نسلیں بھگتیں گی اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے اور کیا نظامِ تعلیم کو تباہ کرنے میں صرف کورونا وائرس کا ہاتھ ہے یا حکومت وقت بھی اس کی ذمہ دار ہے یہ ایک الگ بحث ہے مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ موجودہ حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس نظام پہ خصوصی توجہ دیتے ہوئے کچھ ایسی پالیسیاں بنائی جائیں کہ یہ نظام بجائے مزید بگڑنے کہ بہتری کی طرف گامزن ہو اسے بہتر سے بہتر بنانے کیلئے ہر طرح کے وسائل بروئے کار لائے جائیں کچھ اس طرح کی ایس او پیز بنائی جائیں کہ جن پہ عمل پیرا رہتے ہوئے اس نظام کو کسی طرح کا نقصان نہ پہنچ سکے کیونکہ موجودہ طریقہ بالکل ہی ناکام ہو چکا اور یہ نظام بتدریج خراب سے خراب ہوتا جا رہا ہے جس کا اثر آنیوالی نسلوں پہ بھی یقیناً پڑے گا ہر طرح کے نقصانات قابلِ برداشت بھی ہوتے ہیں اور ان کی ریکوری بھی ممکن ہے مگر بگڑے ہوئے تعلیمی نظام کے تحت پیدا کردہ حالات کے بُرے اثرات نسلوں تک پہنچتے ہیں اور ان کی وجہ سے کمزور ناکام اور گھٹیا معاشرے وجود میں آتے ہیں لہذا حکومتِ وقت سے گذارش ہے کہ اس تباہ شدہ تعلیمی نظام کو جلد از جلد ٹھیک کیا جائے اور اسکی بہتری کیطرف خصوصی توجہ دی جائے تاکہ ایک بہترین معاشرہ پروان چڑھ سکے
Great
Thanks Allottttt