Skip to content
  • by

حضرت مولانا احمد لاہوریؒ(میانی صاحب قبرستان)

اللہ والوں کی جوتیوں میں جو موتی ملتے ہیں وہ بادشاہوں کے تاجوں میں بھی نہیں ملتے۔لاہور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے اور پنجاب کا دارالحکومت بھی ہے۔ اس کو کئی تاریخی عمارات ، مساجد ، مقبروں کی وجہ سے شہرت حاصل ہے۔ جہاں اس شہر میں شاہِ قلعہ ،شالامار باغ وغیرہ واقع ہیں۔وہی لاہور شہر کےتقریباَ وسط میں ایک بہت وسیع و عریض لیکن خاموش سلطنت واقع ہے۔

یہ پاکستان کا سب سے بڑا قبرستان ہے جو کہ ”میانی صاحب” قبرستان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ قبرستان لاہور کے علاقے مزنگ میں واقع ہے۔ ویسے تو روزانہ بہت سے لوگ اور سواریاں اس کے آس پاس سے گزرتی ہیں لیکن بہت کم لوگ اسکی تاریخی حیثیت سے واقف ہیں۔اس قبرستان کو اگر قبروں کا سب سے بڑا “عجائب گھر” کہیں تو بےجا نہ ہو گا کیونکہ اس کی ہر ایک قبر اور اس کا کتبہ ایک نئی ہی کہانی سناتے ہیں۔دراصل اسکا آغاز مغل دورِ حکومت سے ہوا جب لاہور 12 دروازوں کے ساتھ بڑی چار دیواری تک پھیلا ہوا تھا اور موضع مزنگ اس کے مضافاتی ٹیلوں میں سے ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس کے ایک سرے پر میانے رہا کرتے تھے میانے دراصل مولوی حضرات کو کہا جاتا تھا۔ پنجاب کے دیہاتوں میں اب بھی مولوی حضرات کو ’’میانے‘‘ کہا جاتا ہے، اسی وجہ سے اس جگہ کا نام میانی صاحب پڑا۔ میانی صاحب قبرستان 1،206 کنال پر محیط ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس میں تقریباً چار لاکھ قبریں موجود ہیں۔ اس زمین میں بڑے بڑے صوفیاءکرام ، شاعر، قومی ہیرو، افسانہ نگار، صحافی، فوجی اور مدفون ہیں۔جن میں حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، غازی علم دین شہید ؒ ،حضرت واصف علی واصفؒ، میجر شبیر شریف شہید، سعادت حسن منٹو، دلا بھٹی شہید، ساغر صدیقی، حضرت شیخ محمد طاہر بندگیؒ آرٹسٹ،اور بہت سے بزرگانِ دین اور ہستیاں شامل ہیں۔جن میں سے ایک کاذکر یہاں کرنا چاہوں گی۔

:حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ

حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ مئی 1887 کو ضلع گوجرانوالہ کے نزدیک ایک قصبے جلال پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنی والدہ محترمہ سےہی حاصل کی پھر ”مدرسہ دارالارشاد” میں 6 سال تک علوم دینیہ کی تعلیم حاصل کی اور1907ء میں فارح التحصیل ہوئے۔ اس کے بعداسی مدرسہ دارالارشاد میں ہی مدرس مقرر ہوئے ۔آ پ نے قرآن پاک کا ترجمہ کرنے کے علاوہ 34 چھوٹے چھوٹے رسالے تالیف کیے جن میں رسول اللہﷺ کے وظائف، رسوم الاسلامیہ، میراث میں شریعت، اسلام میں نکاح بیوگان، ضرورۃ القرآن، وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
آ پؒ فرمایا کرتے تھے کہ میں اسٹیشن پہنچوں اور گاڑی چلنے کے لیے با لکل تیار کھڑی ہو، میرا ایک قدم پائیدان اور دوسرا پلیٹ فارم پر ہو، گارڈ سیٹی بجا چکا ہو اور گاڑی چلنے لگے۔ ایک آدمی دوڑتا ہوا آئے اور کہے کہ احمد علی، اللہ کا قرآن سمجھا کہ جا تو میرا دوسرا قدم پائیدان پہ بعد میں پہنچے گا لیکن میں آنے والے کو پورا قرآن سمجھا کہ جاؤں گا۔ کسی نے آپ سے پوچھا کہ قرآن کے تیس پارے پائیدان پہ کیسے سمجھائیں گے؟؟آپؒ نے فرمایا ؛ قرآن کا خلاصہ تین چیزیں ہیں،

رب کو راضی کرو عبادت کے ساتھ
شاہ عربؐ کو راضی کرو اطاعت کے ساتھ
خلوقِ خدا کو راضی کرو خدمت کے ساتھ ۔ ۔

یہ پورے قرآن کا خلاصہ ہے۔
آپ ،نے ہر مصیبت میں ہمیشہ قوم کا ساتھ دیا ۔تحریک ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اور قید و بند کی سختیاں بھی برداشت کیں۔
ء میں میکلیگن انجینئرنگ کالج لاہور کے ایک انگریز پرنسپل نے پیغمبر اسلامﷺ کے خلاف نازیبا کلمات استعمال کیے تو آپ نے اس کے خلاف بھی آواز اٹھائی۔اور اسی سلسلہ میں آپ کو گرفتاربھی کیا گیاتھا۔آپ کی خدمات کی ایک بہت لمبی لسٹ ہے جن میں ختم نبوت کا دفاع ، نظامۃ المعارف القرنیہ کے نام پر علما کرام اور جدید تعلیم یافتہ حضرات کی ایک مخلوط جماعت کی تیاری، بے شمار رسالوں میں شریعت کے مسئائل کا حل بیان کرنا اور ، اسلام کی ترقی کے لیے انجمن خدام الدین کا قیام شامل ہے ۔

مولانا احمد علی لاہوریؒ نے 74 سال 9 ماہ کی عمر میں بروز جمعہ 2 رمضان 1381ھ/ 23 فروری 1962ء کو لاہور میں وفات پائی۔ آپ کو بروز ہفتہ 24 فروری 1962ء کو میانی صاحب قبرستان، لاہور میں دفنایا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *