” شرم مگر تم کو نہیں آتی “
صاف اور مختصر بات یہ ہے کہ عوام کو چونا لگانے میں حکومت کامیاب ہو گئی بہرحال آتے ہیں اصل بات کی طرف- ہوا یہ یے کہ ان لوگوں نے 850 سی سی جو گاڑیاں ہیں صرف ان کی قیمت کم کی ہے اور یہ وہ گاڑیاں ہیں جو پاکستان میں بنتی ہیں اور وہ بھی صرف چار گاڑیاں ہیں اور ان میں سے 3 گاڑیاں وہ ہیں جو عام آدمی استعمال ہی نہیں کرتا آگے چل کر ان کا تذکرہ کرتے ہیں. بہرحال وہ گاڑیاں جو باہر سے آتی ہیں 660 سیسی والی جاپانی گاڑی وہ پاکستان میں بننے والی 850 سیسی والی گاڑی سے زیادہ مضبوط اور زیادہ پائیدار اور زیادہ فنکشن والی ہوتی تھی جو یہ کار مافیا تقریبن بند کروانے کے قریب ہیں. اور ان کی قیمتوں میں کوئی اتنا ڈیفرنس بھی نہیں ہوتا تھا وہ ان گاڑیوں کے مقابلہ میں ہزار درجہ اچھی تھی اور یہ یہاں پر ٹین ڈبا بنا رہے ہیں نہ ان کی گاڑہوں میں پاور ونڈو ہے نہ اسٹیرنگ نہ اے سی کام کرتا ہے. نہ بریک نہ اور کچھ .بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ آپ موت کی سواری پر سفر کر رہے ہیں تو غلط نہ ہو گا اور اس کے مقابلہ میں جاپانی گاڑی میں سب فیچر ہوتے تھے بس صرف سیسی کم تھا وہ بھی ہمارے بھلے کے لیے ، اب ہوا یہ کہ جو لوکل مینو فیکچرینگ کمپنیاں تھی یہ عوام کو چونا لگا رہی تھی.
جیسے اب بھی لگا رہی ہیں جب ایمپورٹڈ گاڑیاں آنا شروع ہوئی تو ان کی مارکیٹ گرنا شروع ہو گئی تو یہ لوگ گورمنٹ کے پاس گئے اور کہا کہ ہمارے لیے کچھ کرو تو گورمنٹ نے براے نام ایک ریلیف پیکج تیار کیا وہ یہ کی سوزوکی آلٹو سوزوجی بالان ” کیری ڈبہ ” روڈ پرنس جسے جانتا بھی کوئی نہیں اور چائنہ کی یونائیٹڈ براوو ان گاڑیوں کی قیمتیں سستی کر دیں جو یہاں پر کوئی خریدتا بھی نہیں ہے .
پرائز ڈیفرنس ؟
یو نائیٹڈ براوو پچھلی قیمت دس لاکھ نناوے ہزار ، نئی قیمت دس لاکھ تیس ہزار
پرنس پچھلی قیمت تقریبا ساڑھے گیارہ لاکھ ، نئی قیمت دس لاکھ ستر ہزار
سوزوکی آلٹو گیارہ لاکھ اٹھانوے ہزار ، نئی قیمت گیارہ لاکھ چوبیس ہزار
یہ وہ ٹین ڈبہ ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ سستی کر دیں زرا انصاف سے بتانا انہیں کون سستی ہونا کہے گا ادھر تو بڑے لمبے چوڑے دعوے کر رہی ہے حکومت کہ اب عام آدمی بھی گاڑی لے سکے گا جو صرف ڈرامہ ہے ان سے اچھا تو انڈیا ہے جو اچھے سے اچھے فیچر کی گاڑی ایک لاکھ میں بنا کر اپنی عوام کو دے رہا ہے بہرحال سوال یہ اٹھتا ہے کہ جو گاڑیاں لوگوں کے استعمال میں زیادہ ہیں ان کا کیا کیا ہے مثلا مہران ، ویگن آر ، ہونڈا وغیرہ صرف اپنی پولیٹیکس بچا رہی ہے حکومت اور کچھ نہیں یہ وہ گاڑیاں ہیں جن کی قیمت کم کرنا مخصوص تھی اور ان میں بھی کوئی اتنے خاص فیچر ہیں ہی نہیں اگر کوئی ان گاڑیوں کا جاپانی گاڑیوں سے موازنہ کرنا چاہے تو سچ بتانا ہو سکتا ہے موازنہ مہران میں کیا ہے آج تک یہ عوام مہران کے ہاتھوں پستی ہوئی آ رہی ہے جو اےسی تک لگانے کے لیے تیار نہیں ” شرم مگر تم کو نہیں آتی “
اب بات کرتے ہیں کہ پاکستان میں 800 سیسی سے نیچے بننے والی کوئی گاڑی بھی نہیں ہے سواے کھٹارا آلٹو کے اور اس کے علاوہ آپسن ہی کوئی نہیں اب بھی عام آدمی 10،12 لاکھ کی گاڑی لینے کے لیے نکلے تو یہ اس کا خواب ہی ہے کیا ریلیف ہے یہ کیا غریب کا سوچ رہے ہو اگر ریلیف دینا ہے تو ہزار سیسی والی گاڑیو میں دے نا یہ حکومت یہ بجٹ عوام کے توقعات کے بلکل مخالف ہے وہی ٹیوٹا ہونڈا سوزوکی اس کے علاوہ تو پاکستانیوں نے نام ہی نہیں سنے یہی مافیا ابھی تک 73 سالوں سے راج کر رہا ہے کوئی بولنے والا دیکھنے والا نہیں ان کو جو ماڈل دنیا میں فلاپ ہو رہا ہوتا ہے وہ لا کر پاکستان میں بیچ دیتے ہیں اگر تو یہ انسانوں والا ملک ہوتا کوئی چیکنبیلنس ہوتا تو ان گاڑیوں کے بنانے پر مقدمات قائم ہونے چاہیے تھے الٹا ان کو لائسنس دیے گیے کہ لوٹو اس جاہل عوام کو ،، ان مافیا کو ڈالر سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا چاہے سستا ہو یا مہنگا ان کی قیمتی دن بدن اوپر ہی جا رہی ہیں نہ کی نیچی آتی ہیں بس اب آکر حکومت نے اپنا ایک نام بنانا تھا اور چند ہزار سستی کر کے ہیرو بن گیے کیا کہیں کیا نہ کہیں اللہ ہی حافظ ہے ان لوگوں کا .
( تحریر از اسامہ ظہور اسفرائینی )