ہندوؤں کی رسومات جو مسلمانوں نے اپنا لی ہیں

In عوام کی آواز
June 05, 2021
ہندوؤں کی رسومات جو مسلمانوں نے اپنا لی ہیں

 

مسلمانوں اور ہندوؤں کے باہم میل جول اور رہن سہن  کی وجہ سے ہندوؤں کی بہت سی  رسومات جو مسلمانوں نے اپنا لی ہیں جن کا اسلام میں کوئی تصور موجود نہیں ہے۔آج کے دور میں  ان فرسودہ رسومات کی  آگاہی ہر مسلمان کو ہونا ضروری ہے ۔مثال کے طور پررسم تیجا ہندوؤں کی رسم ہے اس سے ملتی رسم مسلمانوں نے رسم فاتحہ یا پھول ہے۔پھول ہندوؤں میں مردے کی جلی ہڈیوں کو کہتے ہیں جس کو متبرک ندی میں بہا دیا جاتا ہے اور مسلمان اسی دن مردے کی قبر پر پھولوں کی چادر نچھاور کرنا لازمی سمجھتے ہیں۔

بچے کی پیدائش ایک خوشی و مسرت  کا باعث ہوتی ہے ۔اسلام میں بچے کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کرنا، بچے کے کان میں آذان دینا، نام رکھنا، عقیقہ اور ختنہ کرنے کی رسومات کو سادگی سے ادا کرنے کی رسمیں ہیں ۔ہندومت میں رسومات کا آغاز بچے کی پیدائش سے شروع ہوتی ہیں  جیسی گود بھرائی کی رسم جو کہ تیسرے یا ساتواں مہینہ کی جاتی  ہے جس میں میکے والے مختلف قسم کے پھل ، سبزیاں، میوے اور مختلف پکوان لاتے ہیں جو کہ دلہن کی طرح سجی سنوری  ہوئی عورت کی گود میں ڈالے جاتے ہیں ۔یہ رسم بھی مسلم معاشرے میں رائج ہوچکی ہے  اس رسم کا اسلام میں کوئی تصور ہی موجود نہیں ہے۔

اس کے علاوہ وضع حمل اور پیدائش کی بے شمار رسومات ہے جو کہ مسلمانوں نے ہندوؤں سے لی ہیں۔مثلا دردزہ کے موقع پر بی بی مریم کا پنجہ نامی پتہ جو کہ ہاتھ کے مشابہ ہوتا ہے وہ پانی کے گھڑے میں یقین کے ساتھ ڈالا جاتاہے کہ پانی میں حل ہو جانے سے زچگی میں آسانی ہوگئی۔زچہ کے  کمر پر تعویذ باندھا دیا جاتا ہے یا اس کے کمرے میں اذان دی جاتی ہے تاکہ زچگی میں آسانی ہو۔یہ تمام رسمیں ہندوؤں کی رسومات ہیں ۔

بچے کی ولادت کے بعد بھی ایسی بہت سے رسومات ہیں جو کہ ادا کی جاتی ہیں۔مثلا دورانِ ولادت جس بچے کے پاؤں پہلے آجاتے ہیں اس کے بارے میں یقین رکھا جاتا ہے کہ اس کی چند مرتبہ ٹانگیں چلانے سے کمر کا درد دور ہو جاتا ہے ۔اسی طرح ولادت کے دن ماں کے قریب کوئی لوہے کی چیز رکھ دی جاتی ہے تاکہ بلائیں قریب نہ آئیں اور نظر بد اور جنات سے بچا جا سکے۔

بچے کا نام بھی ولادت کے دن اور مناسبت سے رکھا جاتا ہے ، اس کے لیے فال نکالی جاتی ہے ۔عقیقہ میں سارے بال منڈوانے کی بجائے کسی بزرگ یا پیر فقیر کے نام پر بالوں کی  لٹ چھوڑدینے کا رواج بھی اکثر علاقوں میں پایا جاتا ہے۔یہ ہندوؤں کی بودیرسم سے مشابہت رکھتا ہے۔

ہندوؤں میں لڑکیوں کو منحوس  خیال کیا جاتا ہے اگرچہ اب زمانہ ماضی کی نسبت  لڑکیوں کے لیے  حالات بہتر ہیں لیکن مکمل طور پر  ٹھیک نہیں ہیں۔ آج بھی لڑکیوں کو ہندوؤں میں منحوس خیال کیا جاتا ہے اور انڈیا میں ایسے بہت سے علاقے موجود ہیں جو کہ لڑکی کی  پیدائش کا سن کر ابارش کروا دیتے ہیں ۔یہ عمل نام کے مسلمان بھی اپنا رہے ہیں جو کہ ظلم ہے ۔ہندوؤں کی دیکھا دیکھی مسلم معاشرے میں بھی لڑکیوں کی پیدائش پر خوشی کا اظہار نہیں کیا جا رہا۔لڑکے کی پیدائش پر خوشیاں منائی جاتی ہیں ، مٹھایاں تقسیم کی جاتی ہیں، اس سلسلے میں کافی روپیہ خرچ کیا جاتا ہے ۔بچے کی پیدائش کے تیسرے دن نومولود کے ننہال اور ددیال دونوں طرف سے لوگ جمع ہوتے ہیں اور طرح طرح کے کھانوں  سے مہانوں کی ضیافت کی جاتی ہے۔ دلہن کے  میکےسے خاندان کے تمام افراد کے لیے کپڑے اور دلہن کے سونے کے زیورات ، نومولود کے لیے ڈھیر ساری اشیاء دی جاتی ہیں جس پر کافی اسراف کیا جاتا ہے۔یہ رسومات بادشاہوں اور امراء کے ہاں اعلیٰ پیمانے پر کی جاتی تھی۔مختلف علاقوں میں رہنے والے مسلمان ان رسومات کو مختلف طرح ادا کرتے ہیں جیسے پانچویں یا ساتویں دن زچہ غسل کرتی ، نیا لباس پہنتی اور خاندان کے تمام افراد میں روٹی اور حلوہ تقسیم کیا جاتا ، یہ رسمدھن کہلاتی  ہے۔

جب بچہ سات دن کا ہوجاتا تو اس کے سر کے بال منڈوائے جاتے اور ان بالوں کے ہم وزن سونا وچاندی مستحق افراد میں تقسیم کیا جاتا  ۔ زچہ چالیس دن بعد نہاتی ، نیا لباس زیب تن کرتی اور پھر نومولود کو کر میکے جاتی ہے۔نومولود کے پہلے دانت نکالنے پر جو رسم کی جاتی ہے اس میں ننہال والے نومولود کو کوئی تخفہ یا تحفے  دیتے ہیں۔

نومولود کے چلنےپر بچے کی پھوپھیاں میٹھی چیز بانٹتی ہیں ۔آج بھی پنجاب کے اکثر علاقوں میں یہ رسم ادا کی جاتی ہے۔عام طورپر موڑونڈا یا ٹافیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔آپ اپنا جائزہ لیں کیا ہندوؤں کی رسومات جو مسلمانوں نے اختیار کر لی ہیں آپ کے اندر بھی موجود ہیں یا نہیں ہیں؟

/ Published posts: 7

Blogger/Youtuber/Freelancer