:اپنی غلطیوں کی پہچان
اپنی غلطیوں کو پہچان کر اس کی اصلاح کرنا نیک عمل ہے ۔جس طرح لکڑی کو گھن اور معاشرے کو برائیاں کھا جاتیں ہیں بلکل اسی طرح موجودہ دور میںمعاشرتی برائیاں اس قدر فروغ پا چکی ہیں کہ نہ صر ف ہماری ذاتی زندگی بلکہ قومی اور اجتماعی زندگی بھی اجیرن ہو گئی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہمیں برائیوں نے نہیں گھیرا بلکہ ہم نے خود ہی برائیوں کو اپنے اوپر حاوی کر لیا ہے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ برائیاں خود ہی نہیں آجاتیں بلکہ ہماری اپنی کوتاہی، سستی اور دین سے بے زاری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔اور ہم اپنی غلطیوں کو جان بوجھ کر طول دیتے ہیں اور حالات اور دوسروان کے سامنے دیکھاوا کرنے کی غرض سے اپنے آپ کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو فراموش کرتے ہوئے یہ سوچتے ہیں کہ میں نے ایسا کیا کیا میرا پڑوسی ، رشتےدار،دوست تو مجھ سے زیادہ کرتا ہے توہماری یہ عادت بجائے درست ہونے کے پختہ شکل اختیار کر لیتی ہیں
:قول وفعل میں تضاد
ہماری قومی زندگی کا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم منافیقت سے کام لیتے ہیں ہمارے قول وفعل میں تضاد ہے ہمارے دل میں کچھ ہوتا ہے اور زبان پر کچھ یہ عادت نہ صرف گھریلو زندگی بلکہ خاندانوں مو بھی تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیتی ہے۔
:اپنا احتساب کرنا
معاشرے کے بیشترافراد باتیں تو بہت کر تے ہیں مگر عملی طور پر بلکل صفر ہوتے ہیں ہم دوسروں کو نصیحتیں کرتے ہیں مگر اپنا احتساب نہیں کرتے ۔اگر ہرفرد اپنی اپنی جگہ مثبت سوچ رکھے تو بہترین معاشر ہ تشکیل پا سکتا ہے کیونکہ افراد کے مجموعے سے قومیں بنتی ہیں۔
:احساس ذمہ داری کا جذبہ
احساس ذمہ داری ایک ایسا جذبہ ہے جو غلط سے غلط انسان کو درست راہ پر لے آتا ہے۔اگر ہمیں احساس ہی نہیں کہ ہم پر کیا فرا ئض ہیں اور ہمیں کس طرح ان سے عہدہ برا ہونا ہے تو ایسے میں اصلاح کا تصور بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔
:مسائل کا حل
جب تک ہم خوف خدا کو اپنے دلوں میں جگہ نہیں دیتے اور اسوہ حسنہ کو نہیں اپناتے تب تک یہ برائیا ں ختم نہیں ہو سکتیں ۔ خوف خدا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہی میں تمام مسائل کا حل موجود ہے۔