حضرت عمر بن زبیر فرماتے ہیں ہم لوگ طواف کر رہے تھے میں نے طواف کے دوران حضرت عبداللہ بن عمر کو ان کی بیٹی سے شادی کا پیغام دیا تو وہ خاموش رہے اور میرے پیغام کا کوئی جواب نہ دیا’ میں نے کہا اگر یہ راضی ہوتے تو کوئی نہ کوئی جواب ضرور دیتے۔ اب اللہ کی قسم میں ان سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کروں گا ۔ اللّٰہ کی شان وہ مجھ سے پہلے مدینہ واپس پہنچ گئے ۔ میں بعد میں مدینہ آیا ۔ چنانچہ میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں داخل ہوا .
اور جاکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ۔ پھر حضرت ابن عمر کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے خوش آمدید کہا اور فرمایا کب آئے ہو ؟ میں نے کہا ابھی پہنچا ہوں انہوں نے فرمایا : ہم لوگ طواف کر رہے تھے اور اللّٰہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے کا دهیان جارہے تھے اس وقت تم نے مجھ سے ( میری بیٹی ) سودہ بنت عبداللہ کا ذکر کیا تھا حالانکہ تم مجھ سے اس بارے میں کسی اور جگہ بھی مل سکتے تھے ، میں نے کہا ایسا ہونا مقدر تھا ۔ اس لیے ہو گیا ۔ انہوں نے فرمایا : اب تمہارا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ میں نے کہا اب تو پہلے سے بھی زیادہ تقاضا ہے ۔ چنانچہ انہوں نے آپنے دونوں بیٹوں حضرت سالم اور حضرت عبداللہ کو بلا کر میری شادی کردی ۔
نیوز فلیکس 04 مارچ 2021