چھپا رستم
چھوٹے شاہ جی! باسو کمہار قتل ہو گیا ہے۔۔۔ میں نے حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں امام صاحب کو خبر دی۔
کب اور کس نے قتل کیا۔۔۔؟ مجھے ان کی جوابی حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔
کس کا تو پتا نہیں۔۔۔ البتہ اسکی لاش آج سویرے پیپل کے درخت سے لٹکی ہوئی ملی ہے۔۔۔ خنجر کے پورے چھ زخم تھے پیٹ پر۔۔۔ میں نے آنکھیں پھیلاتے ہوئے کہا۔
چلو اچھا ہوا ۔۔۔’’خس کم جہاں پاک‘‘۔ اب اس کی لاش کہاں ہے۔۔۔؟ امام صاحب نے پوچھا۔
وہ تو پولیس لے گئی۔۔۔ میں نے جواب دیا۔
ہوں۔۔۔۔ چلو اور کچھ پتا چلا تو بتانا، اتنا کہہ کر امام صاحب نے تپائی پر کھلے قرآن پاک پر نگاہ جما لی، رمضان کا مہینہ تھا اور انہیں رات کو تراویح میں سنانا ہوتا تھا اس لیے میں جب بھی مسجد میں آیا انہیں قرآن پاک میں ہی ضم پایا۔
میں نے سلام کیا اور الٹے قدموں واپسی کی راہ لی۔۔۔ گھر پہنچنے سے پہلے سارے راستے میرے ذہن میں ایک ہی خیال گردش کر رہا تھا کہ آخر کس نے اتنی جرأت دکھائی اور ایک بے غیرت سے اس زمین کو پاک کر دیا۔۔۔پھر خود ہی بڑبڑا دیا ، کسی غیرت مند کی بہن بیٹی پر نگاہ ڈالی ہو گی تو اس نے بھی ڈال دیا ہو گا راہِ جہنم۔۔۔ لیکن گھوم پھر کر سوال یہی تھا کہ اتنا غیرت مند اور جرأت مند ہے کون۔۔۔اس پورے گاؤں میں تو کوئی نہیں تھا،یہاں تک کہ گاؤں کا پنچ بھی باسو سے ڈرتا تھا۔۔۔ شاید کسی ساتھ والے گاؤں کا ہو۔۔۔ جو بھی ہو گا پولیس پتا لگا لے گی مجھے اپنا دماغ کھپانے کی کیا ضرورت۔۔۔ اس سوچ کے ساتھ ہی میں حویلی کے دروازے پر پہنچ گیا۔
ابا جی کے ساتھ ہتھ ٹوکے پر چارہ بنوانے کے بعد میں ایک بار پھر جائے وقوعہ پر تھا۔
اوئے گامے پتر ! مجھے کمر پیچھے چاچے غلام رسول کی نقاہت بھری آواز سنائی دی۔۔۔ میرا نام تو غلام محمد تھا لیکن گاؤں والے سارے مجھے گاما ہی کہتے تھے۔
جی چاچا! میںنے جواب دیا۔
او پتر مجھے تو کمر کی پیڑ ( درد) نے چلنے پھرنے کے قابل نہیں چھوڑا۔۔۔ وہ تیری بہن زینت ڈاکٹر کے پاس گئی تھی میری دوائی لینے، ابھی تک واپس نہیں آئی ، اس کا تو پتا کر دے۔۔۔ کتھے رہ گئی۔
پہلے تو زینت کو میری بہن کہنے پر میں نے دل ہی دل میں چاچے کو پانچ سات سنائیں ۔۔۔ بچپن سے ناجانے میں اس کے بارے میں کون کون سے خواب دل میں سجا ئے تھا اور چاچا جب بھی ملتا تھا سارے خوابوں پے اوس ڈال دیتا تھا۔۔۔اور پھر ’’اچھا چاچا ‘‘کہتا ڈاکٹر کے کلینک کی طرف چل پڑا۔
دو کھیت عبور کرنے کے بعد سیدھی گلی ڈاکٹر کے کلینک کو جاتی تھی۔۔۔ ابھی میں گلی میں داخل ہی ہوا تھا کی مجھے اسلم مٹھو کی حویلی میں زینت کی جھلک نظر آئی۔۔۔ اس کی عمر سولہ سال ہو گئی تھی جبکہ اپنی عمر سے وہ دو تین سال بڑی ہی لگتی تھی۔۔۔ لیکن ابھی تک وہ اپنے بچپن سے باہر نہیں آئی تھی۔ وہی الہڑ پن ، وہی شرارتیں اور وہی معصومیت۔۔۔ کچھ بدلا تھا تو صرف اس کا قد کاٹھ یا عمر ورنہ ابھی تک وہ وہی بچی تھی ۔۔۔جو کھیتوں میں ہمارے ساتھ آنکھ مچولی کھیلا کرتی تھی یا گلیوں میں گلی ڈنڈا۔۔۔ بیر کی ایک لمبی شاخ سے وہ جامن جھاڑ رہی تھی اور جو جامن زمین پر گرتا اسے اٹھا کر اپنی جھولی میں سمیٹ لیتی تھی۔
زینو! میں نے حویلی کے باہر سے ہی آواز لگائی۔
کیا ہے۔۔۔ اس کی بپھری ہوئی آواز سنائی دی۔ وہ ہر ایک سے اسی لہجے میں بات کرتی تھی اسی لیے زیادہ تر لوگ اس کی پہنچ سے دور ہی رہنا پسند کرتے تھے۔
تیرا ابا تجھے بلا رہا ہے۔۔۔ اس نے تجھے دوائی لینے بھیجا تھا اور تو یہاں جامن اکٹھے کر رہی ہے ۔
ٹھیک ہے ٹھیک ہے! آتی ہوں میں تو جا۔۔۔ اسے کہہ دے آ رہی ہے۔
کوئی اور بات کرنے کی بجائے میں نے وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت سمجھی۔۔۔ ورنہ اس کا کیا پتا بیری کی اس شاخ سے میرے ہی لتے لینے لگ جاتی۔۔۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی اس نے باسو کے ایک ڈشکرے کی دھوبی باٹ مار کر ٹانگ توڑ دی تھی۔۔۔ باسو تلملایا تو کافی تھا لیکن اس کے بھائی رفیق عرف فیکے نے اسے ٹھنڈا کر لیا تھا۔
باسو دو سال پہلے ہمارے گاؤں’’ بسم اللہ گڑھ‘‘ میں آیا تھا۔۔۔ یہ شکر گڑھ کے نواح میں بارڈر کے قریب واقع ہے ۔۔۔ یہاں بجلی تو کسی نا کسی طرح پہنچ ہی گئی ہے لیکن گیس ابھی تک بیس پچیس کلومیڑ دور ہی ہے، پچھلے کئی سالوں سے سن رہے ہیں کہ گیس آ رہی ہے، پتہ نہیں اب آ کیسے رہی ہے ۔۔۔شاید خود ہی آ رہی ہے اور راستے سے بھی بے خبر ہے۔
باسو ایک چھٹا ہوا بدمعاش تھا۔۔۔ اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔۔۔ جو بھی جانتا تھا بس اتنا کہ یہ جو کہتا ہے سر جھکاؤ اور مان لو۔۔۔ ابتداء میں یہ صرف بھتہ لیا کرتا تھا،لیکن پھر آہستہ آہستہ گاؤں والوں کی لڑکیوں پر نظر رکھنی شروع کر دی ۔۔۔ اگر کوئی اس کی راہ میں رکاوٹ بنتا تو اگلے دن کسی کھیت میں اس کی لاش ملتی تھی۔۔۔ پولیس میں کئی دفعہ رپورٹ درج کروائی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، پولیس کو ہر مہینے ان کا حصہ پہنچتا رہتا تھا انہیں کیا تکلیف تھی بلاوجہ ٹانگ اَڑانے کی اور اگر کسی کو ایمانداری کا بخار چڑھ بھی جاتا تو چند دن بعد وہ کسی اور شہر میں بیٹھا ہوتا تھا۔۔۔ فیکہ اس کا چھوٹا بھائی تھا۔۔۔ وہ اس سے چار قدم آگے تھا لیکن ٹھنڈا کر کے کھانے کا عادی تھا۔۔۔ شکار کو اس طریقے سے گھیرتا تھا کہ شکار کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا۔۔۔ دو سالوں میں کئی لڑکیوں کی آبروریزی ہوئی اور کئی لوگ گاؤں چھوڑ کر چلے گئے۔۔۔ لیکن ان دو بھائیوں کی صحت پر کیا اثر پڑنے والا تھا چاہے پورا گاؤں ہی اپنے گھر بار چھوڑ کر نکل جاتا۔۔۔ یہ کسی اور گاؤں پر منہ مارنا شروع کر دیتے ۔۔۔اور سارے گاؤں کی غیرت بھی سوئی رہی جن میں میں بھی شامل تھا۔
اور آج دو سال بعد باسو کی لاش پیپل پر ٹنگی ہوئی ملی تھی۔۔۔ گاؤں والوں کے چہرے سے خوشی کے سوتے پھوٹ رہے تھے لیکن وہ کھل کر خوشی کا اظہار نہیں کر سکتے تھے اگر ایسا کرتے تو شاید کل اسی جگہ ان کی اپنی لاش ٹنگی نظر آتی کیونکہ فیکہ تو ابھی زندہ تھا۔
اگلے دن لاش واپس آ گئی ۔۔۔ فیکہ امام صاحب کے پاس پہنچا کہ وہ جنازہ پڑھا دیں۔۔۔ اور اس وقت پورے گاؤں نے ایک حیرت کن منظر دیکھا جب امام صاحب نے کمال اطمینان سے کہا ۔۔۔ ’’ میں کسی کافر کا جنازہ نہیں پڑھا سکتا‘‘۔۔۔جس کے سامنے کسی کی اونچی آواز نہیں نکلتی تھی اس کے سامنے کل کا یہ لڑکا اس کے بھائی پر کفر کا فتویٰ لگا کر جنازے سے انکار کر رہا تھا۔
فیکے کا چہرہ غصے سے لال بھبکا ہو گیا۔۔۔ اس نے دانت پیسے اور امام صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کر گرجا۔۔۔ کیا کہا دوبارہ بول ذرا۔
میں نے کہا۔۔۔ ’’ میں کسی کافر کا جنازہ نہیں پڑھا سکتا‘‘۔ بہرہ ہو گیا ہے تو جا اپنے کان کا علاج کروا۔۔۔ امام صاحب نے دوسری بارہ گرج کر اس کی آنکھوں میں جوابی آنکھیں گاڑتے ہوئے کہا۔
فیکے کا دایان ہاتھ گھوما اور امام صاحب کے منہ پر پڑا۔۔۔ امام صاحب کے قدم ڈگمگا گئے اور باچھوں سے خون بہہ نکلا۔۔۔ فیکے نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ انہیں روئی کی طرح دھن کے رکھ دیا اور ہم اسی بے حسی کی تصویر بنے کھڑے رہے۔۔۔ ہم میں سے کوئی آگے نہ بڑھا کہ اس کا ہاتھ روک لے۔
اسے اٹھا کر ڈیرے پر لے جا دیکھتا ہوں میں یہ کیسے جنازہ نہیں پڑھاتا۔۔۔اس کا تو باپ بھی جنازہ پڑھائے گا۔اس نے اپنے ایک گرگے کو اشارہ کیا۔
باسو کا جنازہ ہو گیا۔۔۔ جنازہ کسی اور مولوی نے پڑھایا تھا۔۔۔ تین دن گزر چکے تھے چھوٹے شاہ جی کا کوئی پتہ نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں سارے گاؤں والے پریشان تھے کیونکہ چھوٹے شاہ جی کو وہ سب اپنے سگے بیٹوں کی طرح ہی سمجھتے تھے۔
چھوٹے شاہ جی کا اصل نام تو عبد الباسط تھا لیکن سب اُن کو اُن کے بچپن سے ہی چھوٹے شاہ جی کہا کرتے تھے۔۔۔وہ اسی گاؤں میں پیدا ہوئے تھے اور ایک سید گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، ان کے والد عالم تھے۔۔۔ وہ نہایت شفیق ،نیک اور پرہیزگار شخص تھے۔۔۔ گاؤں والے آنکھیں بند کر کے ان پر اعتماد کرتے تھے، ان کے پاس اپنی امانتیں رکھواتے جن میں کبھی خیانت نہیں ہوئی۔۔۔چھوٹے شاہ جی کی والدہ اُن کے بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھیں۔۔۔ چھوٹے شاہ جی کا نام ان کی والدہ ہی نے رکھا تھا۔۔۔اور ان کی پرورش بھی ان کے والد کے ہاتھوں ہی ہوئی تھی۔
میں نے اور چھوٹے شاہ جی نے دس جماعتیں گاؤں کے سکول میں اکٹھی پڑھی تھیں۔۔۔ ہم بچپن سے ہی اچھے دوستوں کی طرح تھے۔۔۔ بے تکلفی کی کئی حدیں عبور کرنے کے باوجود ان کا ایک احترام تھا جو ہمیشہ میرے دل میں رہا ۔۔۔اور ویسے بھی وہ اتنے سلجھے ہوئے اور شریف النفس تھے کہ کوئی کچھ کہہ بھی دیتا، چاہے غلطی دوسرے کی ہوتی یہ معذرت کر لیا کرلیا کرتے تھے۔۔۔ میٹرک کے بعد میں ابا جی کے ساتھ کھیت اور جانور سنبھالنے لگا اور ساتھ ساتھ پرائیویٹ اپنی پڑھائی بھی جاری رکھی جبکہ چھوٹے شاہ جی شہر کے ایک بڑے مدرسہ میں داخل ہو گئے۔
باسو کمہار ابھی گاؤں میں نیا نیا ہی وارد ہوا تھا کہ چھوٹے شاہ جی کے والد صاحب فوت ہو گئے ۔۔۔ ان کے وفات کے بعد چھوٹے شاہ جی پکے ہی شہر کے ہو کر رہ گئے تھے۔۔۔ میں نے سنا تھا کہ وہ ساتھ ساتھ کالج میں بھی پڑھ رہے ہیں جس کی بعد میں انہوں نے خود تصدیق کر دی تھی۔۔۔ اور پھر پونے دوسال بعد وہ اچانک گاؤں میں لوٹ آئے۔۔۔ ان کی آمد پر گاؤں والوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔۔۔ اور پھر گاؤں والوں نے اس مولوی کو فارغ کر دیا جس سے سارے ہی تنگ تھے اور چھوٹے شاہ جی نے اپنے والد صاحب کی مسند سنبھال لی۔
چھوٹے شاہ جی کو یہاں آئے دو مہینے ہو گئے تھے ۔۔۔ وہ اپنے والد ہی کی طرح شفیق، مہربان اور نیک تھے۔۔۔ انہوں نے گریجوئیٹ کے ساتھ مدرسہ کی تعلیم بھی پوری کر لی تھی اور پھراس زمین کی طرف لوٹ آئے تھے جہاں انہوں نے پہلی بار آنکھ کھولی تھی۔۔۔ اور آج اس شریف النفس نے ایک بدمعاش کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا تھا۔۔۔ جہاں سب حیران تھے وہیں ان کی سلامتی کی دعائیں بھی کر رہے تھے۔۔۔ قرین از قیاس تھا کہ فیکے نے کہیں ان کو مروا ہی نہ دیا ہو۔
باسو کی لاش پہنچانے کے بعد پولیس دوبارہ گاؤں میں نظر نہیں آئی۔۔۔ لوگوں کا یہی کہنا تھا کہ فیکے نے پولیس کو تفتیش کرنے سے منع کر دیا تھا ۔۔۔ اب حقیقت کیا تھی وہ اللہ ہی بہتر جانتا تھا۔
چوتھے دن شام کے وقت اقبال عرف بالا مجھے ملا۔۔۔ میں اس وقت سائیکل کے پیچھے ڈول لادے ساتھ والے گاؤں میں دودھ دینے جا رہا تھا۔۔۔ وہ میرے پاس آتے ہوئے بولا گامے تجھے پتہ ہے چھوٹے شاہ جی ڈیرے سے بھاگ گئے ہیں۔
اس کی بات سن کر میں اچھل پڑا ۔۔۔ تجھے کس نے کہا۔۔۔ میں نے حیرت سے پوچھا۔
وہ تجھے پتہ ہے نا دیمے مسلی سے میری تھوڑی گل بات ہے۔۔۔ وہ فیکے کا بندہ ہے اسی نے بتایا ہے۔۔۔ پر تو آگے کسی کو نہ بتانا، فیکے نے یہ بات سب سے چھپا کر رکھی ہے۔۔۔ تجھے بھی اس لیے بتا رہا ہوں کیونکہ تو اپنا پکا یار ہے۔۔۔ اس نے اپنی آواز کو دباتے ہوئے منہ میرے کان کے نزدیک کرتے ہوئے کہا۔
دیکھ بات پکی ہے نا۔۔۔ یہ نا ہو کہ فیکے نے امام صاحب کو مروا دیا ہو اور دیما تجھ سے جھوٹ بول رہا ہو۔ میں نے تشویش کا اظہار کیا ۔
سولہ آنے پکی بات ہے۔
اس کی بات نے میرے اندر خوشی کی ایک لہر دوڑا دی۔۔۔ واہ بالیا کیا خبر سنائی ہے۔۔۔ دل کرتا ہے کہ تیرا منہ چوم لوں۔ میں نے خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے کہا۔
بس بس۔۔۔ اتنا بھی خوش نہ ہو کہ لوگ تیرا منہ چومنے کی آرزو کرنے لگیں۔
اس کی بات کا واضح مطلب تھا کہ میں کہیں بات آگے نہ کر دوں۔۔۔ میں نے آج تک کوئی بات آگے کی ہے۔۔۔؟ میں نے خفگی سے منہ بناتے ہوئے کہا۔
جان من ! اس لیے تو تجھے بتائی ہے ۔۔۔ کیونکہ تیرا پیٹ اتنی باتیں نو مہینے سے بھی زیادہ برداشت کر جاتا ہے۔۔۔ اور پھر ہنستا ہوا وہ دوسری گلی مڑ گیا۔
اس دن میں بہت خوش تھا۔۔۔ خوشی ایسی تھی کہ چھپائے چھپ نہیں رہی تھی۔۔۔ حالانکہ ابھی تک اس بات کی کوئی پکی تصدیق نہیں ہوئی تھی لیکن پھر بھی مجھے یقین سا ہو گیا تھا کہ امام صاحب فیکے کی قید سے بھاگ گئے ہیں۔۔۔ جب میں دودھ دے کر واپس لوٹا تو دھیمی آواز میں سیٹی بجاتا ہوا گھر میں داخل ہوا سامنے ہی اماں چولہے کے سامنے بیٹھی انگاروں پر خشک لکڑیاں رکھ کر پھونکنی سے پھونک کر انہیں بھڑکانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔ بڑا خوش نظر آ رہا ہے اماں کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔ کچھ نہیں اماں بس ایویں ای کہتاہو میں اپنے کمرے میں گھس گیا۔
رات دو بجے کا وقت ہو گا ابا جی نے مجھے جگایا۔۔۔ گامے پتر اٹھ بڑا زور کا مینہ ( بارش) آیا ہوا ہے۔۔۔ میں رات ڈنگر باہرہی باندھ آیا تھا۔۔۔ جا انہیں ورانڈے( صحن) میں کر آ۔۔۔ بچارے پوری رات ٹھنڈ میں کھڑے بددعائیں ہی نہ دیتے رہیں۔
اچھا ابا جی کہہ کر میں نے گرم بستر چھوڑا ، برساتی لی اور حویلی کی طرف چل دیا۔۔۔ ابھی میں حویلی سے کچھ دور ہی تھا کہ میں نے کسی کو کھیتوںکی طرف جاتے دیکھا اس نے چادر کی بکل مار رکھی تھی۔۔۔ہمارے گاؤں میں ڈیروں پر رفع حاجت کا کوئی انتظام نہیں ہے اس لیے لوگ کھیتوں کا رخ ہی کرتے ہیں۔۔۔ اگر موسم خوشگوار ہوتا تو میں ایسا ہی سمجھتا لیکن اتنے خراب موسم میں کسی کا اتنی دور کھیتوں میں آنا خلاف عقل تھا۔۔۔ میں تجسس سے مجبور اس کے پیچھے چل دیا۔۔۔ مخصوص فاصلہ رکھ کر میں اس کے پیچھے پیچھے تھا۔۔۔ کھیت عبور کر کے اس نے اپنا رخ فیکے کے ڈیرے کی طرف موڑ لیا۔۔۔ کچھ دیر وہ فیکے کے ڈیرے کے پاس کھڑا سن گن لیتا رہا پھر وہ گھوم کر ڈیرے کی پچھلی جانب مڑ گیا۔۔۔ میں اس کے پیچھے لپکا لیکن اتنی دیر میں وہ کھیت عبور کر کے ایک گلی میں داخل ہو چکا تھا۔۔۔ میرے گلی تک پہنچتے پہنچتے وہ اس کا نام و نشان ناپید ہو چکا تھا۔
پتہ نہیں وہ کون تھا۔۔۔ کہاں سے آیا اور کہاں غائب ہو گیا۔۔۔ فیکے کے ڈیرے کے پاس وہ کیا لینے گیا تھا۔۔۔ انہیں سوچوں میں غلطاں میں حویلی پہنچا ڈنگر کھول کر اندر باندھے اور گھر لوٹ آیا۔۔۔ نیند کی آغوش میں گم ہونے سے پہلے مختلف قسم کے کئی سوال میرے ذہن میں کلبلا رہے تھے۔
اگلے دن وہی معمول کے کام نبٹانے کے بعد میں چاچا غلام رسول کے گھر چلا گیا۔۔۔ زینو گھر میں جھاڑو دے رہی تھی اور چاچا چارپائی پر بیٹھا حقے کے کشش لگا رہا تھا۔۔۔ چاچے کا حال احوال پوچھنے کے بعد میں زینو کے پاس چلا گیا۔۔۔ مجھے دیکھ کر وہ بولی۔۔۔ گامے چھوٹے شاہ جی کا کچھ پتہ چلا۔۔۔؟
نن۔۔۔ نہیں۔۔۔ مجھے تو کچھ نہیں پتہ تجھے کچھ پتہ چلا ہے تو بتا دے۔ میری زبان لڑکھڑائی لیکن پھر میں نے اسے قابو کر لیا۔۔۔ وہ واحد شخصیت تھی جس کے سامنے مجھے جھوٹ بولنا مشکل ہو جاتا تھا۔
وہ بالا کہہ رہا تھا کہ وہ فیکے کے ڈیرے سے بھاگ گئے ہیں۔اس نے اطمینان سے کہا۔
کک۔۔۔ کیا، کب اور بالے کو کس نے کہا۔۔۔ مجھے امید تو تھی کہ بالے کے پیٹ میں بات نہیں رہے گی۔۔۔ لیکن یہ امید نہیں تھی کہ وہ اس کو بھی بتا دے گا۔۔۔زینو کا پیٹ اتنا ہلکا تھا کہ اگلے چند گھنٹوں میں پورے گاؤں میں یہ بات پھیل جانی تھی۔
اسے دیمے نے بتایا ہے۔۔۔ وہی جس کی پچھلے جمعے میں نے ٹانگ توڑی تھی۔
چل میں پتہ کرتا ہوں بات پکی ہے یا کسی نے ایویں ہی پھیلا دی ہے۔۔۔ اتنا کہہ کر میں وہاں سے اٹھا اور سیدھا بالے کے گھر کے سامنے بریک لگائی۔
بالا گھر میں ہی تھا۔۔۔ سلام دعا کے بعد میں نے اس کے لتے لینے شروع کر دیے۔۔۔ مجھے تو بڑا کہہ رہا تھا بات پیٹ میں رکھ خود جا کے زینو کو بتا دی اب پورے گاؤں کو پتا چل جائے گا۔۔۔ میں نے غصے اور خفگی کی ملی جلی کیفیت میں کہا۔
تجھے بتا دیا اس نے۔۔۔ اس نے حیرانگی سے کہا۔
نہیں! مجھے تو الہام ہوتا ہے۔۔۔ سویرے جاگا تو الہام ہوا کہ تو نے زینو کو بتا دیا ہے۔۔۔ میں نے الفاظ چباتے ہوئے کہا۔
چل چھوڑ یار۔۔۔ اب بندہ کس پر اعتبار کرے اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ کسی کو نہیں بتائے گی۔
اور تو اس کے وعدے پر اعتبار کر گیا۔۔۔ واہ واہ۔۔۔ اوئے دماغ کے فارغ اس نے کبھی اپنے ابے کی بات بھی چھپائی ہے۔۔۔ اُس دن گاؤں میں اعلان کرتی پھرتی تھی ۔۔۔’’ابے کی سوتے میں دھوتی کھل گئی‘‘۔۔۔ جس کو ابھی تک یہ نہیں پتا کہ کیا بتانا ہے اور کیا نہیں اسے تو جا کے سب بتا آیا ہے۔۔۔ چل پتر اب تو بھی تیار ہو جا باسو والی جگہ لٹکنے کے لیے۔
چل اب تو غلطی ہو گئی آئندہ میری توبہ جو اسے کوئی بات بتائی۔
آئندہ کے لیے اگر تو بچا تو پھر سوچیں گے۔
یار ڈرا تو نہیں نا۔۔۔
میں ڈرا نہیں رہا حقیقت بتا رہا ہوں۔۔۔ چل اب مجھے اجازت دے ابے نے آج شہر جانا تھا ۔۔۔ گھر میں اماں اکیلی ہو گی کوئی کام ہی پڑ جاتا ہے تو وہ کہاں ڈھونڈتی پھرے گی مجھے۔۔۔ میں نے اجازت طلب کی اور گھر آ گیا۔۔۔ ابا جی شہر جا چکے تھے۔۔۔ اماں چارہائی پر بیٹھی چاول صاف کر رہی تھی۔۔۔ میں گھر میں داخل ہوا تو اماں کی آواز کانوں سے ٹکرائی۔۔۔ گامے پتر تیرا ابا کہہ گیا تھا کہ آج وہ ڈنگروں کا ڈاکٹر آئے گا اس بھوری گاں(گائے) کو ٹیکا لگوا لینا۔۔۔ تین دن ہو گئے ہیں دودھ کم دے رہی ہے۔
اچھا اماں کہہ کر میں چھت پر چڑھ گیا۔۔۔کچھ دیر بعد ڈاکٹر آیا تو میں اسے لے کر حویلی چلا گیا۔
یہ رات کے غالبا ڈھائی تین بجے کا وقت ہو گا۔۔۔ جب کسی نے دروازے پر زور دار دستک دی۔۔۔ میرا کمرہ کیوں کہ دروازے کے ساتھ ہی تھا اس لیے میں فورا اُٹھ گیا۔۔۔ اس کے ساتھ ہی چاچے غلام رسول کی آواز سنائی دی ۔۔۔او گامے پتر ! میں تیزی سے بستر چھوڑ کر دروازے کی طرف لپکا کہ چاچے کو اتنی رات میں کوئی مشکل ہی ہو گی جو بیماری کے باوجود خود ہی آگیا۔۔۔ اتنی دیر تک ابا جی بھی جاگ چکے تھے۔
میں نے دروازہ کھولا۔۔۔ چاچا فورا آگے بڑھا اور روتے ہوئے بولا پتر وہ کمینہ زینو کو اٹھا کر لے گیا ہے۔
میرے پیروں تلے سے زمین سرک گئی۔۔۔ مجھے نہیں پتا کہ کس نے مجھے روکا بھی ہے۔۔۔ ابا میرے پیچھے لپکا لیکن میں اپنے ہوش کھو چکا تھا۔۔۔ میں اندھا دھند بھاگا جا رہا تھا۔۔۔ میرا رخ فیکے کے ڈیرے کی طرف تھا اور مجھے اس کی خبر نہیں تھی کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔۔۔ ذہن میں بس یہی تھا کہ وہاں زینو ہے اور آج مجھے غیرت مند بننا ہے۔۔۔ زینو کو اس درندے کے ہاتھوں بچانا ہے یا خود مر جانا ہے۔
لیکن فیکے کے ڈیرے پر پہنچنے سے پہلے میری ساری غیرت جھاگ کی طرح بیٹھ گئی تھی۔۔۔ وہ سارے جذبے جو کچھ لمحے پہلے ٹھاٹھیں مارمار کر اٹھے تھے اب دھیمے پڑ رہے تھے۔۔۔ لیکن کہیں کوئی چنگاری تھی جسے ہوا کی ضرورت تھی۔۔۔ اس سے پہلے کہ اس چنگاری کو ہوا ملتی میں نے چیخ کی آواز سنی۔۔۔ آواز ڈیرے کے اندر سے آئی تھی اور کسی مرد کی معلوم ہوتی تھی۔۔۔ میں سارے اندیشے بالائے طاق رکھ کر تیزی سے ڈیرے کی طرف بھاگا۔
ڈیرے میں داخل ہو کر میری سب سے پہلے جس شخص پر نظر پڑی وہ فیکہ تھا۔۔۔ اس کی قمیض خون میں لتھڑی ہوئی تھی اور وہ پشت کے بل زمین پر پڑا تھا۔۔۔ اسی اثناء میں میری نظر ایک سائے پر پڑی جو یوار پھاند کر ڈیرے سے باہر جا رہا تھا۔۔۔ میں اس کے پیچھے لپکا اتنی دیر میں وہ دیوار پھاند چکا تھا۔۔۔ میں نے جونہی دیوار پھاندی وہ میرے سامنے آ گیا۔۔۔ اس کا چہرہ دیکھ کر میری زبان گنگ رہ گئی وہ چھوٹے شاہ جی تھے۔
چھچ۔۔۔ چھوٹے شاہ جی آپ۔۔۔؟ میرے منہ سے پھنس پھنس کر الفاظ نکلے۔
ہاں میں۔۔۔ اب جلدی کرو زینت کو لو اور گھر جاؤ۔۔۔ اور کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔۔۔ سویرے میں خود کو سارے گاؤں والوں کے سامنے بتا دوں گا کہ فیکے کو میں نے مارا ہے۔
لل۔۔۔ لیکن آپ نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ میں بمشکل اتنا ہی کہہ سکا۔
ہاں غلام محمد میں نے۔۔۔ تم سوچ رہے ہو گے کہ ایک ایسا شخص جو دوسروں کی غلطیوں پر بھی خود معافی مانگا کرتا تھا آج قاتل بنا سامنے کھڑا ہے۔۔۔ایک زخمی سی مسکراہٹ ان کے لبوں پر لہرائی اور پھر معدوم ہو گئی۔
وہ دوبارہ گویا ہوئے۔۔۔ غلام محمد تمہیں پتا ہے باسو کو کس نے مارا تھا۔۔۔؟
نہیں چھوٹے شاہ جی! میں نے جواب دیا۔
اسے بھی میں نے مارا تھا۔۔۔ انہوں نے اطمینان سے کہا۔
کک۔۔۔ کیا۔۔۔۔۔اسے۔۔۔ بھی آپ۔۔۔ نے مارا تھا۔۔۔۔۔؟
ہاں ! اسے بھی میں نے ہی مارا تھا۔۔۔ لیکن کیوں مارا تھا یہ میں سویرے سب گاؤں والوں کے سامنے بتاؤں گا۔۔۔ اتنا کہہ کر وہ رکے نہیں اور گاؤں سے باہر جانے والے راستے کی طرف چل دیے۔
میں ڈیرے میں واپس آیا زینو چارپائی سے بندھی ہوئی تھی۔۔۔ میں نے اسے کھولا اور سہارا دے کر گھر لے آیا۔
یہ پہلا موقع تھا کہ گاؤں کی کوئی لڑکی اس ڈیرے سے صحیح سلامت واپس آگئی تھی۔۔۔ سب حیران تھے اور یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ سب میں نے کیا ہے۔۔۔ چاچے غلام رسول کے لبوں سے دعاؤں کے انبار نکل رہے تھے۔۔۔ اس کا بس چلتا تو وہ ساری دعائیں قبول کروا کر ہی چھوڑتا۔
زینو بھی پہلے سے کچھ بدلی بدلی لگ رہی تھی۔۔۔ کیونکہ حقیقت حال کا اسے بھی نہیں پتا تھا۔۔۔ سارے گاؤں والے جان چکے تھے کہ فیکہ مر چکا ہے اور یہی سمجھ رہے تھے کہ اسے میں نے مارا ہے۔۔۔لیکن حقیقت کیا تھی وہ صرف میں جانتا تھا اور وہ جس نے اسے مارا تھا۔۔۔ انہیں اس بات کا خدشہ تھا کہ پولیس مجھے لے جائے گی۔۔۔ اس بات نے کئی لوگوں کے چہرے پر سوگواری طاری کر رکھی تھی۔۔۔ لیکن جب میں نے انہیں حقیقت حال سے روشناس کروایا تو وہ سب پہلے سے زیادہ حیران نظر آنے لگے۔
صبح کے آٹھ بجے تھے ۔۔۔ پنچائیت لگی ہوئی تھی۔۔۔ پولیس موجود تھی یہ انسپکٹر نیا نیا آیا تھا اور سنا تھا کہ ایمان دار بھی ہے۔۔۔سب کو کسی کا انتظار تھا اور آخر وہ آ گیا۔۔۔ جونہی چھوٹے شاہ جی نے پنچائیت میں قدم رکھا ہر چھوٹے بڑے کی نگاہ ان پر جم گئی۔
اسلام علیکم! چھوٹے شاہ جی نے سلام کیا اور ایک خالی نشست پر بیٹھ گئے۔
سلام کا جواب دینے کے بعد سب سے پہلے انسپکٹر نے ہی ان سے سوال کیا۔۔۔ مولوی صاحب کیا آپ نے ہی فیکے اور باسو کو قتل کیا ہے۔۔۔؟
جی! انہوں نے مختصر جواب دیا۔
کیوں۔۔۔؟
انہوں نے نگاہ اٹھا کر ایک دفعہ سارے مجمعے کو دیکھا اور پھر گویا ہوئے۔۔۔ جب آپ جیسے قانون کے رکھوالے چند روپوں کے لیے بک جائیں اور انسانیت و غیرت مر جائے تو ہمارے جیسے مصلح کو تبلیغ چھوڑ کر ہتھیار تھامنا ہی پڑتا ہے۔
میں تمہاری کی تقریر سننے نہیں آیا۔۔۔ میں نے جو پوچھا ہے اس کا جواب دو۔۔۔ انسپکٹر نے تلملاتے ہوئے کہا۔
باسو اور فیکے کے گناہوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔۔۔ وہ اگر سنانے بیٹھ جاؤں تو بات لمبی ہو جائے گی۔۔۔ اور ویسے بھی وہ سارے گناہ آپ اور گاؤں والے اچھی طرح جانتے ہیں بس ان کی غیرت مر گئی ہے اور آپ کا قانوں نوٹوں تلے دبا پڑا ہے۔۔۔ اس۔۔۔۔۔
مولوی صاحب میں آپکی تقریر نہیں سننا چاہتا جو اصل بات ہے وہ بتاؤ۔۔۔ ورنہ تھانے میں جا کر تم فر فر سب کچھ بولو گے۔۔۔ اور وہاں تمہیں تقریریں کرنے کا شوق بھی نہیں چڑھے گا۔۔۔آپ سے تم پر آتے ہوئے انسپکٹر نے دانت پیسے۔
انسپکٹر صاحب آپ حوصلہ رکھیں وہ بتا تو رہا ہے۔۔۔ پنچ نے کہا۔
چھوٹے شاہ جی مسکرائے اور انسپکٹر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے گویا ہوئے۔۔۔ سچ ہمیشہ کڑوا ہی ہوتا ہے۔۔۔ انسپکٹر کے چہرے سے غصے کے آثار تو نظر آئے پر وہ کچھ بولا نہیں۔
بختاور کمبوہ کو جانتے ہو۔۔۔؟ اس نے انسپکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے استفہامیہ کہا۔
ایم این اے بختاور کمبوہ کی بات تو نہیں کر رہے۔۔۔؟
ہاںوہی۔۔۔ یہ دونوں بھائی اسی کے لیے کام کرتے تھے۔۔۔ اور مولوی صاحب بھی طبی موت نے مرے انہیں بھی ان دونوں نے قتل کیا تھا۔۔۔ انہوں نے انکشاف کیا اور پنچائیت میں موجود گاؤں کے لوگ سنسنا کر رہ گئے۔
یہ مولوی صاحب کون ہیں۔۔۔؟ انسپکٹر نے پوچھا۔
وہ ان کے والد صاحب تھے۔۔۔ پنچ نے جواب دیا۔
گاؤں والے شروع سے ہی چھوٹے شاہ جی کے والد صاحب کو مولوی صاحب ہی کہا کرتے تھے جن کے دیکھا دیکھی چھوٹے شاہ جی نے بھی ان کو مولوی صاحب ہی کہنا شروع کر دیا تھا۔
وہ کب فوت ہوئے۔۔۔ ؟ انسپکٹر نے پھر پوچھا۔
تقریبا دو سال ہو گئے ہی۔۔۔ پنچ نے جواب دیا۔
تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ بختاور کے بندے ہیں اور انہوں نے ہی تمہارے باپ کو قتل کیا ہے۔۔۔ جبکہ سارے گاؤں والے جانتے ہیں کہ وہ طبی موت مرے تھے۔۔۔۔ انسپکٹر نے چھوٹے شاہ جی سے پوچھا۔
انسپکٹر کو چھوٹے شاہ جی کے آنے سے پہلے پنچ صاحب اُن کے بارے میں سب کچھ بتا چکے تھے۔
جو میں جانتا ہوں وہ گاؤں والے نہیں جانتے۔۔۔ سب سے پہلے مجھے تب شک پڑا تھا جب میں شہرسے لوٹا تھا اور مولوی صاحب کی چارپائی کے سرہانے دائیں پائے کے ساتھ ان کی تسبی گری دیکھی تھی۔۔۔ مولوی صاحب سوتے وقت تسبی ہمیشہ تکیے کے نیچے رکھ کر سوتے تھے اور آج تک ان کی تسبی کبھی چارپائی سے نیچے نہیں گری۔۔۔ یقینی بات ہے کہ کسی نے ان کے سر کے نیچے سے تکیہ نکالا تو تسبی نیچے جاگری اور پھر اس تکیے کے ساتھ ان کا منہ بند کر دیا گیا اور دوباراسی طرح تکیہ ان کے سر کے نیچے رکھ دیا۔۔۔ دوسری بات سب سے پہلے انہیں دیکھنے والا چاچا اللہ بخش تھا، ان کا کہنا ہے کہ مولوی صاحب سر تک چادر اوڑھے سو رہے تھے جبکہ میں نے اپنی چوبیس سالہ زندگی میں آج تک انہیں سینے سے اوپر چادر لے کر سوتے نہیں دیکھا۔۔۔اور تیسری بات شاید کسی نے بھی غور نہیں کیا کہ دروازہ اندر سے کھلا تھا۔۔۔ جبکہ کوئی بھی رات کو اپنے گھر کا دروازہ کھول کر نہیں سوتا۔چھوٹے شاہ جی اتنا کہہ کر چپ ہو گئے۔
گاؤں والے سارے جانتے ہیں کہ تمہارے والد صاحب ان دنوں بیمار تھے اور اسی بیماری کی وجہ سے ہی ان کی موت ہوئی۔۔۔ اور باقی سب تو اتفاقات میں آتا ہے، یہ تو کوئی ثبوت نہ ہوا۔۔۔ انسپکٹر نے کہا۔
ڈاکٹر صاحب بھی یہیں ہیں ان سے پوچھ لیں کہ مولوی صاحب اتنے بیمار تھے کہ وفات پا جاتے۔۔۔؟ چلیں اس سب کو اتفاق بھی مان لیا لیکن یہ تو اتفاق نہیں ہے نا۔۔۔ چھوٹے شاہ جی نے ایک موبائل فون نکال کر انسپکٹر کی طرف بڑھا دیا ۔
یہ کیا ہے۔۔۔؟ انسپکٹر نے پوچھا۔
موبائل فون ہے جی۔۔۔
وہ تو مجھے بھی پتا ہے کہ یہ موبائل فون ہے۔۔۔ میں اتنا بھی گھامڑ نہیں ہوں۔۔۔اس میں کیا ثبوت ہے۔ انسپکٹر نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
چھوٹے شاہ جی نے موبائل واپس لے کر ایک ویڈیو چلائی اور انسپکٹر کے سامنے کر دی۔۔۔ انسپکٹر نے ویڈیو دیکھنے کے بعد چھوٹے شاہ جی کی طرف دیکھا اورحیرت سے بولا یہ ویڈیو تمہیں کہاں سے ملی اور یہ بنائی کس نے ہے۔۔۔؟
ویڈیو کس نے بنائی یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔۔۔البتہ مجھے یہ باسو کے ڈیرے سے ملی ہے اور موبائل بھی باسو کا ہی ہے۔
اس ویڈیو میں کیا ہے انسپکٹر صاحب۔۔۔ پنچ نے پوچھا۔
آپ خود ہی دیکھ لیں۔۔۔ انسپکٹر نے موبائل ان کی طرف بڑھا دیا اور پھر وہ ویڈیوبہت سے لوگوں نے دیکھی۔۔۔ اس ویڈیو میں باسو کمہار مولوی صاحب کے منہ پر تکیہ رکھ کر ان کو مار رہا تھا۔
لیکن باسو کی تمہارے باپ سے کیا دشمنی تھی۔۔۔ انسپکٹر نے سوال کیا۔
باسو کی مولوی صاحب سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔۔۔ اس کی دشمنی پاکستان سے تھی اور میرے والد صاحب کو پاکستان سے محبت تھی بس یہی عداوت انہیں لے گئی۔
تم بات بہت گھما پھرا کر کرتے ہو جو بات ہے وہ صاف صاف بتاؤ۔
یہ آج سے ڈھائی سال پہلے کا بات ہے ۔۔۔ اس وقت پاکستان میں فرقہ واریت کا عفریت شہروں سے ہو کر سادہ لوح دیہاتیوں کو نگلنے کے لیے لپکا۔۔۔ میں ان دنوں شہر میں پڑھتا تھا کبھی کبھی ہی گاؤں کی طرف چکر لگتا تھا۔۔۔ ایک دن لوٹا تو مولوی صاحب کافی پریشان تھے میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ کچھ لوگ قریہ قریہ اشتہار بانٹتے پھر رہے ہیں جن سے فرقہ واریت کو ہوا ملے گی اور گھر گھر فساد پھیل جائے گا۔۔۔ اس سے زیادہ پریشانی کی بات یہ تھی کہ انہیں بھی اس بات پر مجبور کیا جا رہا تھا کہ وہ بھی اس مہم میں شامل ہو جائیں۔۔۔ جب کہ ان کی ساری زندگی سب کو ایک کرتے گزر گئی تھی۔۔۔ اور اس سب کے پیچھے بختاور کمبوہ تھا۔۔۔ جو کہ اسلام مخالف ملکوں کا آلہ کار ہے۔۔۔ اسی کی شہ پر جگہ جگہ کفر کے فتووں کا بازار گرم تھا۔۔۔ جب مولوی صاحب نے صاف انکار کر دیا تو انہیں قتل کی دھمکی دی گئی اور ایک دن وہ ایسے سوئے کہ دوبارہ اٹھ ہی نہ سکے۔
ان کے قتل سے دو ماہ پہلے باسو اور اس کا بھائی فیکہ اس گاؤں میں وارد ہوئے تھے۔۔۔ باسو اور فیکہ نہ بھائی تھے اور نہ ہی مسلمان ان کے نام ثمر کمار اور شیوم سنہا تھے۔۔۔ یہ دونوں انڈیا کے ٹاپ کلاس کے غنڈے تھے جنہیں ہائر کر کے تخریب کاری کے مقصد سے پاکستان بھیجا گیا تھا جہاں انہیں بختاور کی معاونت کرنی تھی ۔۔۔ اور اس سے اچھی تخریب کاری کیا ہوتی کہ مسلمانوں کو آپس میں ہی لڑا دیا جائے۔۔۔ شروع شروع میں انہوں نے صرف لوگوں پر اپنی دھاک بٹھائی اور جب وہ جان گئے کہ اس گاؤں کے لوگ اتنے بزدل ہیں کہ اگر ان کی عزتیں بھی خراب کر دی جائیں تو یہ چوں بھی نہ کریں گے ۔۔۔ تب انہوں نے اپنا اصلی روپ دکھانا شروع کریا۔۔۔ جس کی وجہ سے گاؤں کے اکثر لوگ شہروں کی طرف بھاگ گئے۔
پھر گاؤں میں ان کی مرضی کا ایک مولوی آیا وہ وہی کہتا تھا جس کا اسے حکم دیا جاتا تھا۔۔۔ ثمر اور شیوم نے صرف اس گاؤں پر ہی بس نہیں کی تھی بلکہ وہ دوسرے گاؤں پر بھی منہ مارتے تھے اور ان کی پشت پناہی بختاور کرتا تھا جس وجہ سے کوئی بھی پولیس والا ان پر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتا تھا۔۔۔ اور اگر کسی کو ایمانداری کا بھوت چڑھ بھی جاتا تو اسے اٹھا کر کسی اور شہر میں پھینک دیا جاتا۔۔۔ پھر دو ماہ پہلے میں اس گاؤں میں آگیا۔۔۔ گاؤں والوں نے جب دوسرے مولوی کو چلتا کیا تو ثمر اور شیوم میرے پاس آئے اور وہی بات سامنے رکھی جو ڈھائی سال پہلے مولوی صاحب کے سامنے رکھی تھی ۔۔۔ اگر میں تب انکار کر دیتا تو آج ان دونوں کی جگہ میں اوپر پہنچ چکا ہوتا۔
میںڈیڑھ مہینے تک راتوں کو جاگ جاگ کر ڈیرے کی ریکی کر تارہا کہ کوئی موقع ملے اور میں کچھ کرسکوں اور آخر ایک دن مجھے موقع مل گیا۔۔۔ اس دن ثمر(باسو) ڈیرے پر اکیلا تھا اور ارجن شہر گیا ہوا تھا ۔۔۔ میں دیوار پھاند کر ڈیرے میں داخل ہو گیا عین اسی وقت ثمر رفع حاجت کے لیے ڈیرے کے ایک کمرے سے باہر نکلا اور میں اس کمرے میں گھس گیا۔۔۔ وہ دس منٹ بعد لوٹا اتنی دیر میں میں کمرے کی اچھی طرح تلاشی لے چکا تھا۔۔۔ سرہانے پڑا ایک خنجر بھی میری تاویل میں آ چکا تھا اور اب مجھے ثمر کا انتظار تھا۔۔۔جونہی وہ فراغت کے بعد کمرے میں داخل ہوا میں نے دروازے کی اوٹ سے نکل کر پہلا وار اس کے سینے پر کیا اورآدھا خنجر اس کے سینے میں ترازو ہو گیا۔۔۔ میں نے اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ پے در پے پانچ مزید وار کیے اور جب وہ ٹھنڈا ہو گیا تو چارپائی کی نواڑ سے اسے پھندا لگا کر ڈیرے کے اندر ہی پیپل کے درخت سے لٹکا دیا۔
تلاشی کے دوران جو چیزیں میرے ہاتھ لگی تھیں ان میں ایک یہ موبائل بھی تھا۔۔۔ جس میں ثمر نے ویڈیو بنائی تھی شاید اپنے کسی آقا کو اپنا کارنامہ دکھانا چاہتا ہو۔۔۔ اسے چاہیے تو یہ تھا کہ موبائل ہی ضائع کر دیتا لیکن اس نے صرف ویڈیو ڈیلیٹ کرنے پر ہی اکتفا کر لیا۔۔۔ مجھے جب موبائل ملا تو میں نے ’’ ڈیٹا ری کور ‘‘ کے ذریعے اس کا سارا ڈیٹا ری کور کیا اور اسی ڈیٹا میں یہ ویڈیو بھی ملی۔۔۔ جس بات کا پہلے مجھے صرف شک تھا اس بات کی اب تصدیق ہو گئی تھی۔۔۔ میں کوئی مجرم نہیں تھا لیکن جب انسانیت پر سربریت کی انتہا ہونے لگے تو تسبی اور مصلیٰ چھوڑ کر کبھی کبھی شمشیر بھی تھامنی پڑتی ہے۔۔۔سو میں نے بھی اس وقت شمشیر تھامنے کا فیصلہ کیا تھا۔۔۔ جب انسان کسی بات کا مسمم ارادہ کر لیتا ہے تو اللہ خود ہی راستے پیدا کرتا جاتا ہے ۔
میرے اناڑی پن کی وجہ سے ارجن کو میری کارکردگی کا علم ہو گیا اور اگلے دن وہ جنازے کا بہانے مجھے اٹھا کر ڈیرے پر لے گیا۔۔۔ جہاں سے میں موقع دیکھ کر فرار ہو گیا۔۔۔ تین چار دن پھر میں نے پہلے کی طرح اسی کام میں لگا دئیے کہ کوئی موقع ملے اور میں ارجن کا بھی کچھ کر سکوں ۔۔۔ اس دوران گاؤں کے ایک شخص نے میرا پیچھا بھی کیا لیکن میں نے اس پر ظاہر نہ ہونے دیا کہ میں اس کے پیچھا کرنے سے واقف ہوں اور اسے جل دینے میں کامیاب ہو گیا۔۔۔ چھوٹے شاہ جی کا واضح اشارہ میری طرف تھا ۔
اور کل رات وہ چاچے غلام رسول کی بیٹی زینت کو اٹھا لے گیا۔۔۔ اس وقت اس کے ڈیرے پر ان دونوں کے سواء کوئی نہیں تھا۔۔۔ اور اب اس بات کی گنجائش ہی نہیں بچی تھی کہ اسے اور مہلت دے دی جاتی۔۔۔ لہٰذا کل میں نے اُس کو بھی اس کے منہ بولے بھائی کے پاس بھیج دیا۔
تم ان کو قانون کے حوالے بھی کر سکتے تھے۔۔۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں کیوں لیا۔
قانون نے آج تک کیا کیا ہے۔۔۔ جو ان کے ساتھ کرتا، چند دن بعد وہ اسی طرح دندناتے پھرتے اور وہی سب کچھ ہوتا جو اب ہو رہا ہے۔۔۔اور انسپکٹر صاحب میں اس لیے یہاں نہیں آیا کہ اپنی ہمت کی داد وصول کروں یا گاؤں والوں کو قصے سنا کر خوش کروں۔۔۔ بلکہ میں صرف اس وجہ سے آیا ہوں کہ انہیں بتا سکوں کہ جب انسان کچھ کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے تو راستے خود بنتے چلے جاتے ہیں۔۔۔ کوئی بھی جابر تمہیں اس وقت تک نہیں جھکا سکتا جب تک تم خود نہ جھک جاؤ۔۔۔ اگر میں اکیلا یہ سب کچھ کر سکتا ہوں تو یہ درجنوں لوگ کیوں نہیں کر سکتے۔۔۔ کیا میں کوئی بہت بڑا پہلوان ہوں جو پشتوں کے پشتے لگا سکتا ہے۔۔۔ جس کی ہیبت سے اس کے دشمن ڈرتے ہیں۔۔۔ نہیں میں بھی ایک کمزور انسان ہوں۔۔۔ بس فرق اتنا ہے کہ میں خالق سے ڈرتا ہوں اور یہ مخلوق سے ڈرتے ہیں۔۔۔ جس دن یہ خالق سے ڈرنا شروع کر دیں گے اس دن انہیں کوئی مات نہیں دے سکے گا۔
پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں مولوی صاحب۔۔۔ آپ ثبوت دیں بختاور کو کٹہرے میں کھڑا کرنا میرا کام ہے۔
ٹھیک ہے۔۔۔ یہ تین موبائل ہیں، ان میں میسجزاور کالز کے مکمل ریکارڈ موجود ہیں اور کچھ لوگوں کے قتل کی ویڈیوز بھی۔۔۔ جن میںتین بڑے علماء اور دو سیاسی لیڈر بھی شامل ہیں۔۔۔ اب دیکھتے ہیں آپ کا قانون کتنا مضبوط ہے۔
انسپکٹر ثبوت اور چھوٹے شاہ جی کو لے گیا۔۔۔ چند ماہ بعد وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔۔۔ بختاور کو باعزت بری کر دیا گیا اور چھوٹے شاہ جی کو دو بے قصور لوگوں کو قتل کرنے کے جرم میں سزا سنادی گئی۔۔۔ جس دن ان کو سزا ہوئی اس کے ایک ہفتہ بعد سننے میں آیا کہ وہ جیل سے فرار ہو گئے ہیں اور ان کے فرار کے کچھ ہی دن بعد بختاور اپنی حویلی میں مردہ پایا گیا۔۔۔ اس کے جسم پر بھی خنجر کے چھ زخم تھے۔
بختاور کو مرے آج تین سال ہو گئے ہیں لیکن وہ چھپا رستم آج تک پولیس کو نہیں مل سکا ۔۔۔ جس کی شرافت کی سارا گاؤں مثالیں دیا کرتا تھا۔۔۔ اور اس نے سارے گاؤں کو بتادیا تھا کہ شرافت سر جھکانے کا نہیں ہر ظالم کے آگے سر اٹھانے کا نام ہے۔۔۔شاید اب وہ کسی اور گاؤں میں لوگوں کی غیرت کو جگا رہا ہوگا۔
تحریر: محمد طاہر ابوبکر