عہد رسالت میں بلیک آوٹ کی ایک نظیر

In اسلام
February 05, 2021

آج کل کی جنگوں میں بلیک آوٹ ایک لازمی ضرورت ہے اس عمل کی ایک نظیر عہد رسالت میں بھی ملتی ہے۔
جمادی الثانیہ ٨ھ میں جہاد کے لئے ایک لشکر مدینہ طیبہ سے دس منزل کے فاصلے پر لخحم وجزام کے قبائل کے مقابلے کے لئے بھیجا گیا تھا جس کے امیر حضرت عمرو بن العاصؓ تھے اس غزوہ میں دشمن کے سپاہیوں نے پوری فوج کو حلقہ زنجیر میں جکڑ رکھا تھا تا کہ کوئی بھاگ نہ سکے اسی لئے یہ غزوہ “ذات السلاسل” کے نام سے موسوم ہے(یاد رہے کہ جنگ ذات السلاسل کے نام سے جو مشہور جنگ ہوئی وہ دور صحابہ میں اسکے بعد ہوئی)۔
اس غزوہ میں حضرت عمرو بن العاصؓ نے اپنی فوج کو یہ حکم دیا کہ لشکر گاہ میں تین روز تک رات کے وقت کسی طرح کی روشنی نہ کریں اور نہ آگ جلائیں تین دن بعد دشمن میدان سے بھگ کھڑا ہوا بھاگتے ہوئے دشمن کا صحابہ کرامؓ نے تعاقب کرنا چاہا مگر حضرت عمروؓ نے تعاقب سے منع کر دیا لشکر کے جانبازوں کو روشنی بند کرنے کے حکم ہی سے ناگواری تھی کہ تعاقب نہ کرنے کا حکم اور بھی ناگوار گزرا مگر اطاعت امیر کی بنا پر تعمیل لازمی تھی اس لئے بے چوں و چرا پابندی کی گئی البتہ جب لشکر مدینہ طیبہ واپس پہنچا تو آنحضرتؐ سے شکایت کی گئی آپؐ نے حضرت عمرو بن العاصؓ کو بلا کر وجہ دریافت فرمائی۔
حضرت عمرو نے عرض کیا کہ یا رسول اللّه! میرے لشکر کی تعداد دشمن کے مقابلے میں تھوڑی تھی اس لئے میں نے رات کو روشنی کرنے سے منع کیا کہ مبادا دشمن ان کی قلت تعداد کا اندازہ لگا کر شیر نہ ہو جائے اور تعاقب کرنے سے بھی اس لئے روکا کہ انکی تعداد دشمن کے سامنے آجائے گی تو وہ کہیں لوٹ کر حملہ نہ کر دے۔
رسولؐ نے انکی اس جنگی تدبیر کو پسند فرما کر اللّه تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
تحریر:: ملک جوہر