Skip to content

زندگی کی حقیقت

انسان کی بڑی نادانی ہی یہی ہے کہ وہ جب سے دنیا میں آیا ہے اس کو اپنا سمجھ بیٹھا ہے مگر حقیقت اس کے بلکل برعکس ہے۔یہ دنیا عارضی ہے ۔جو لوگ یہاں آئے انہوں نے ایک دن ضرور جانا ہے یہی ایک تلخ حقیقت ہے مگر انسان یہ سب جاننے کے باوجود بھی اپنے رب کی نا فرمانی کرتا ہے۔

چھوٹا سا حساب

آئیے اپنی زندگی کا تھوڑا سا حساب کرتے ہیں۔یوں تو کسی کو معلوم نہیں کہ ہماری زندگی کتنی ہے۔ مگر ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ہماری زندگی 60 سال ہے۔ تو اس میں ہم روزانہ 8 گھنٹے کام کرتے ہیں جو تقریباً 20 سال بنتے ہیں۔ بقایا میں ہم روزانہ تقریباً 8گھنٹے سوتے ہیں جو کہ 20 سال بنتے ہیں۔بقایا سالوں میں 15 سال ہمارے بچپن میں گزر جاتے ہیں۔ باقی بچے 3 سال اور وہ بھی ہم اس میں اگر کھانے پینے کا حساب کریں تو تقریباً یہ بھی ایک سال بنتا ہے۔ تو پیچھے 2 سال باقی رہتے ہیں۔ اب ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ 60 سالوں میں ہم کتنا وقت اپنے رب کی عبادت کے لیے وقف کرتے ہیں۔ تو ہمیں چاہیئے کہ اس بارے میں تھوڑا سا سوچیں ۔کیونکہ یہ دنیا عارضی ہے اور یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ جو کچھ ادھر بویا ہے وہی آخرت میں ملے گا۔

زندگی کا مقصد
ہماری زندگی کا مقصد ہی یہی ہے کہ ہم جو بھی کام کریں وہ صرف اللہ کی رضا کے لیے ہو تبھی تو ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ تو انسان کو چاہیے کہ اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھ لے اور اس پر عمل کرنا شروع کر دے۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ”جھوٹی دنیا اور جھوٹا جہان ھے۔ جہاں دھوکے میں ہر انسان ہے” یہ دنیا تو فانی ہے کچھ بھی ہم ساتھ لے کر نہیں جا سکتے تو ہمیں چاہیئے کہ ادھر وہی کچھ جمع کریں جو آخرت میں بھی ہمارے کام آ سکے۔ کیونکہ سکندر اعظم جیسے بادشاہ نے بھی یہی کہا تھا کہ جب میں دنیا سے جا ؤں تو میرا ایک ہاتھ کفن سے باہر نکال دینا تا کہ دنیا کو پتہ چل سکے کے سکندر اس دنیا سے خالی ہاتھ گیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دین اور دنیا میں کامیابی عطاء فرمائے ۔اور اللہ تعالیٰ تمام امت مسلمہ پر اپنا خصوصی رحم اور کرمائے اور ہمیں ہمیشہ راہ حق پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *