اسلام علیکم.
امید ہے.اپ سب خیریت سے ہوں گے.
بھائیوں. آج کے دورمیں اگر کسی حکمران کی مثال لینی ہو تو ہم کہتے ہیں کہ فلاں غیر مسلم ملک کا صدر بہت اچھا ہے. فلاں غیر مسلم ملک کی وزیراعظم اپنے لوگوں کا بہت خیال کرتی ہے. اسکے علاوہ کوئی مسلمان حکمران ہمیں نظر نہیں آتا. سوائے کچھ مسلم حکمرانوں کہ جو کہ بہت تھوڑی تعدا میں ہیں.
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری راہبری کا سوال ہے
سنو بھائیوں.. حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ 10 لاکھ مربع میل پر حکمران تھے. جن کا یہ کہنا تھا کہ دجلہ کے کنارے اگر کوئی کتا بھوکا اور پیاسا مر گیا تو کل عمر سے پوچھا جائے گا.
حضرت سعید بن عامر کو جناب حضرت عمر نے ایک صوبے کا گورنر بنا دیا ہے. سیدھے سادے درویش قسم کے آدمی تھے. کچھ دنوں بعد جناب حضرت عمر انکے صوبے میں چلے گئے. جامع مسجد میں سب لوگوں کو اکٹھا کیا اور گورنر صاحب بھی موجود تھے. وہاں سب لوگوں سے پوچھا کہ لوگو….! بتاؤ تمہارا گورنر کیسا ہے…….. اللہ اکبر……
ذرا تصور تو کریں. کہ صوبے کا گورنر سامنے کھڑا ہے اور حضرت عمر لوگوں سے پوچھ رہے ہیں کہ گورنر صاحب کیسے ہیں. انک معاملات آپ کے ساتھ کیسے ہیں..
تو لوگ بولے.
کہ 4 شکائتیں ہیں
1. جب شروع میں گورنر بنے تھے تو فجر کی نماز بعد ہی لوگوں کے مسائل سنتے اور حل کرتے تھے. اب نماز پڑھنے کے بعد گھر چلے جاتے ہیں. اور 09 یا 10 بجےکے بعد تشریف لاتے ہیں.
2.ہفتے کےایک دن ملتے ہی نہیں.
3. دن کو ملتے ہیں رات کو ملتے ہی نہیں.
4. کبھی کبھی رونے لگ پڑتے ہیں اور روتے روتے بے ہوش ہو جاتے ہیں. عجیب دیوانہ گورنر لگایا ہے آپ نے..
حضرت عمر فاروق گورنر صاحب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا. بولو تمہاری شکایتیں ہیں. جناب سعید بن عامر بولے. حضور….! میرا راز نہ ہی کھلتا تو اچھا تھا.. چلو آپ کہتے تو بتا تا ہوں.
عمر بولے کہ پہلی شکایت ہے فجر کی نماز کے بعد گھر چلے جاتے ہو.
گورنر صاحب بولے.
حضور.. غریب آدمی ہوں نوکر رکھنے کی استطاعت نہیں.. بیوی میری بیمار ہو گئی ہے. اس بھلی مانس نے 30 سال میری خدمت کی ہے. بچے میرے پاس نہیں.
نماز فجر کے بعد گھر جاتا ہوں. اپنی بیوی کو ناشتہ بنا کر دیتا ہوں. اسکےکپڑے بلوانے والے ہوں تو بدلواتاہوں. گھر میں جھاڑو دیتا ہوں. برتن دھوتا ہوں. اسلیے دیر ہو جاتی ہے.
پہلے سوال کا جواب سن کر عمر سمیت سب پر سکتہ طاری ہو گیا.
جناب عمر بولے.
دوسری شکایت ہفتہ کے ایک دن نہیں ملتے.
تو سعید بن عامر نے عرض کیا . حضور… ایک ہی کرتا ہے میرے پاس. ہفتے کے ایک دن دھو کر خشک کرنے کیلیے پھیلاتا ہوں. بیوی کے کپڑے پہن کر بیٹھا رہتا ہوں. سردی کا موسم ہے. میرا کرتا سوکھتے عصر ہو جاتی ہے… یہ سن کر مسجد میں بیٹھے لوگوں کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے.
جناب عمر فاروق نے فرمایا … کہ تیسری شکایت کہ دن کوملتے ہو رات کو نہیں.
تو سعید بن عامر رونے لگے. اپنی داڑھی کو پکڑ کر بولے. حضور ساری سفید ہو گئی ہے کوئی بال کالا تو نہیں؟
دن مخلوق کے لیے رکھا تو رات رب کو منانے کے لیے رکھی ہے. کوئی پتہ نہیں کب بلاوا آ جائے.. رات رب کو مناتے گزرتی ہے. کہ یہاں پردہ رکھا ہے تو وہاں بھی رکھنا…. یہاں وقار دیا ہے تو وہاں بھی آبرو رکھنا…
جناب عمر نے فرمایا.
کبھی کبھی روتے اور بے ہوش بھی جاتے ہو.
تو عرض کیا………حضور بہت پختہ عمر میں اسلام قبول کیا. 40 سال کی عمر میں کلمہ حق پڑھا. چالیس سال کے گناہ یاد آتے تو رو پڑتا ہوں. کی کیسے حساب دوں گا. تو تڑپ کر بے ہوش ہو جاتا ہوں.
اب آپ میری سزا بھی تجویز کر دیں…
حضرت عمر فاروق نے ہاتھ اٹھا لیے. اور دعا کی. اے اللہ. اس جیسے گورنر مجھے اور عطا کر….
.
یہ تھی جمہوریت. یہ تھا مسلمانوں کا طرزِ حکمرانی. ہے کوئی آج کے دور میں ایسی مثال
کوئی نہیں.
لیکن اسمیں غلطی ہماری بھی ہے. کہ
جیسی رعایا ویسے حکمران.
آج ہم خود کو دیکھ لیں کہ ہم کیا ہیں. کیا کرتے ہیں دنیا جہاں کی برائیاں ہم میں پائی جاتی ہیں. تو ہمارے حکمران بھی ایسے ہی ہوں گے نا……!
جناب اقبال نے ایسے ہی نہیں کہہ
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
تم زمانے میں رسوا ہوئے تارک قرآن ہو کر.
.
آج ہم نے قرآن مجید پڑھنا اور سمجھنا چھوڑ دیا جس کی وجہ سے ہم پستی میں گرے ہوئے ہیں.
دعا ہے. اللہ پاک ہم سب کو صیح معنوں میں مسلمان بنائے اور قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین.