ایشیا میں سائنس:
سائنس نے چین میں اپنے طور پر نشوونما پائی۔ چینیوں نے بارود ایجاد کیا اور اس کی مدد سے آتش بازی، راکٹ اور بندوقیں متعارف کرائیں۔ دھاتوں کو زیر استعمال لانے کے لیے دھونکنیاں بنائیں۔ انہوں نے ابتدائی قسم کا زلزلہ پیما اور پہلا کتب نما ایجاد کیا۔ 1054ء میں چینی فلکیات دانوں نے ایک سپرنووا کا مشاہدہ کیا جس کی شناخت1731ء میں کریب نیبولا کی حیثیت سے ہوئی۔
پہلے عیسوی ہزارئیے کی انتہائی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی میں سے کچھ ایشیاء میں ہوئی مثلا ہندوستان میں چرخہ ایجاد ہوا۔ چینیوں نے زرعی طریقے سیکھنے کے لئے وفود ہندوستان بھیجے۔ ہندوستانی ریاضی دانوں نے جو کچھ ایجاد کیا آج ہم اس کو عربی اعداد و شمار یا نظام اعداد قرار دیتے ہیں۔ جس میں منفی اعداد اورصفر شامل ہے۔ عربوں نے ٹرگنومیٹری میں سائن(جیب زاویہ)اور کوسائن (جیب مستوی) کی تعریف متعین کی۔
اسلام کا سنہری دور:
آٹھویں صدی عیسوی کے وسط میں اسلامی عباسی خلافت نے اپنا دارالخلافہ دمشق سے بغداد کو منتقل کر دیا۔ قرآن پاک کے اس ارشاد کی روشنی ورہنمائی میں کے عالم کی سیاہی کسی شہید کے خون سے زیادہ مقدس ہوتی ہے، خلیفہ ہارون رشید نے اپنے نئے دارالخلافہ میں”دانشکدہ” قائم کیا۔ اس عظیم الشان لائبریری اور مرکز تحقیق و تجسس بنانے کے لیے ہندوستان اوریونان کی قدیم شہری ریاستوں سے کتابیں اکٹھی کر کے ان کا ترجمہ عربی میں کرایا گیا۔ اسی کام کی بدولت بہت سی قدیم تحریریں انجام کار مغرب میں پہنچیں۔ نویں صدی عیسوی کے وسط تک بغداد کی لائبریری فروغ پا کر سکندریہ لائبریری کی عمدہ جانشین بن گئی۔
دانش کدہ سے تحریک پانے والوں میں بہت سے ہیت دان(ماہرفلکیات) بھی ابھرے۔ ان میں بالخصوص”الصوفی” کا نام سرفہرست ہے جس نے ابرخس(ہپارکس)اور بطلیموس (پٹولمی) کے کام کو بنیاد بناکر فلکیات میں مزید اہم اور قابل قدر کام کیا۔ علم فلکیات عرب خانہ بدوشوں کے لیے سفر میں رہنمائی کا ذریعہ تھا۔ ستاروں کی مدد سے رات کو صحراؤں میں اپنے اونٹوں کو درست سمت میں رکھ سکتے تھے۔ بعد ازاں بحری سفر میں بھی یہ علم مددگار ثابت ہوا۔ الہیثم، بصرہ میں پیدا ہوا۔ اس نے بغداد میں تعلیم پائی۔ وہ پہلا تجرباتی سائنس دان تھا۔ بصریات پراس کی کتاب کو آئزک نیوٹن کے کام کے سلسلہ میں اہمیت دی گئی۔
عرب کیمیا دانوں نے عمل تقطیر اور دیگر نئی تکنیکس وضع کیں اور الکلی، ایلڈی ھائیڈ اور الکحل کے لیے الفاظ رائج کیے۔ طبیعیات دان ”الرازی” نے صابن متعارف کروایا اور چیچک اور خسرہ کے درمیان امتیاز واضح کیا۔ اپنی متعدد کتابوں میں سے ایک میں اس نے لکھا کہ طبیب(معالج یا ڈاکٹر) کا مقصد بہتری لانا ہے چاہے مریض کوئی دشمن ہی کیوں نہ ہو۔ الخوارزمی اور دیگرریاضی دانوں نے الجبرا اور ایلگوریتھم ایجاد کیے۔ انجینئر الجزری نے کریک جوڑنے والا راڈ سسٹم ایجاد کیا جو آج بھی بائسیکل اورکاروں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان ایجادات کا مقابلہ کرنے کے لیے یورپی سائنسدانوں کو ابھی کئی صدیاں درکار تھیں۔