ایم اے اُردو کی کلاس میں کھڑے ہو کر بچوں سے پوچھا ’’پُتر اردو ادب کو کیوں چُنا؟‘‘ ایک لڑکا بولا ’’سر جی ہم تو اردو کا ادب شروع سے ہی بڑا کرتے تھے‘‘ دوسرا لڑکا بولا ’’سر جی اور کسی جگہ ایڈمیشن نہیں ملا‘‘ ۔ تیسرا لڑکا کچھ بولنے ہی والا تھا کہ میں نے کہا ’’تمارا پتہ ہے تم رہنے دو‘‘ میرے اس جملے پر بائیں ہاتھ بیٹھی اس کی گرل فرینڈ شرم سے دوہری ہوگئی۔ ایک لڑکی بولی ’’سر مجھے ماسٹر کا شوق ہے بھلے انگریزی کا ہو یا اردو کا‘‘ اس جواب پر میں زرا سا گھبرایا اور چل کر اس سے کچھ دور ہوگیا جبکہ باقی کلاس قہقہوں سے گونج اُٹھی۔ دوسری بولی ’’سر آئی لَوو اقبال اینڈ آئی آلسو وانٹ ٹو بی کم آ گُڈ کلاسیکل سِنگر‘‘ ۔ ایک محترمہ نے ببل پھلا کر پھوڑی اور منہ سمیٹتے ہوئے بولی ’’سر یہ اردو ادب والے انکلز شراب شروب بڑی پیتے ہیں اس لئے مجھے بھی شوق ہوگیا کہ چیک تو کروں‘‘۔ ماشٹر نے گھر آکر فیسبک کھولی تو اردو ادب کے پچاسی سو استاد دکھائی دیے، ایک بار سوچا کہ کاش میں بھی عملی ماشٹری کو چھوڑ چھاڑ کر ان کی طرح فیس بک پر علمی چولیں مار سکتا، نہ ہی پریشانی ہوتی، نہ ہی بچوں کی بدتمیزیاں جھیلنی پڑتیں اور پھر یہاں پر علم پھیلتا بھی تو جلد ہے جبکہ اصل میں تو سر کے بال سفید ہوجاتے ہیں مگر علم اوتھے دا اوتھے ای۔ اس لیے عزیر قارئین اردو کا مقام ہماری زندگیوں میں وہ نہیں رہا جو اسکا ہونا چاہیے اور ابھی بھی یہ مقام دینا اردو پر احسان نہیں بلکہ یہ ہم اپنی ذات پر احسان مند ہوں گے جو اپنی زبانکی قدر کریں گے۔ اس لیے اپنی نیی نسل کو اردو سے متعارف کرائیں۔ اور اردو کی صحیح روح تک انکی رسائی کے ذرائع ترتیب دے کر انکی زندگی پر رحم کریں۔
Thursday 7th November 2024 11:15 am