Skip to content

مقدمہ

سن دو ہزار سات شروع ہوتے ہی ہمارے کئی اسلامی خطوں کے اندر سنسنی خیز اور تشویشناک واقعات کا جو ایک نیا سلسلہ نکل کھڑا ہوا شاید وہ ایک نئے چیلنج کی شروعات تھی اور تاریخ اسلام میں ایک نئے خوبصورت مرحلے کو روک دینے کیلئے عالمی سامراج کی جانب سے ہاتھ پیر مارنے کی ایک کوشش بھی اور اسلامی قیادتوں کے صبر و حوصلہ زیرک پن اور دور رس سوچ رکھنے کا ایک امتحان بھی۔
٢٠٠٦ء کے اواخر کو پونچتے پونچتے عراق اور افغانستان کی صورت حال آخری حد تک واضح تھی کہ امریکہ تسلط اب یہاں پر کوئی دیر کی بات نہیں اور یہ کہ امریکہ کی تاریخ میں آئیندہ ہزیمت اور پسپائی کے لئے حوالہ اب ویتنام اور ویتنامی گوریلا کا نہیں بلکہ افغانستان اور مجاھدین کا دیا کریں گے یہ حوالہ امریکی تاریخ میں جس حقیقت کے لیا ذکر ہو گا اس ہزیمت اور پسپائی سے بڑی کوئی ڈراؤنی حقیقت نہیں۔
جو امریکہ افغانستان میں غنڈوں کی طرح گھوسا جو اپنے آپ کو کچھ چیز سمجھتا ہے اپنے آپ کو آج بھی سپر پاور مانتا ہے امریکہ افغانستان میں چند روز میں قبضہ کرنے کے لئے آیا تھا لیکن دیکھا جائے تو امریکہ نے افغانستان میں کھویا ہی کھویا ہے پایا کچھ بھی نہیں افغان مجھائدین نے ان گوری چمڑیوں کو چیونٹیوں کی طرح مثل کر رکھ دیا آج حالات یہاں تک پونچ گئے ہیں کے امریکہ پاکستان کی منتیں کر رہا ہے کہ ہماری جان چھوڑا دو بیشک سپر پاور صرف اللّه کی ذات ہے اور اللّه کے نیک بندے جو اپنے حق کے لئے لڑتے ہیں اور حق ذات پر بھروسہ رکھتنے وار کرتے ہیں تو بڑی بڑی سپر پووروں
کو گھٹنوں پے لے آتے ہیں۔
مغرب کی ہم پر مسلط کی ہوئی اس حالیہ جنگ کے پس اختمام کو دنیا کو دیکھنا چاہیے بلکہ یہ کہ مغرب کا مستقبل اب کیا ہے اور عالَم اسلام کو آئیندہ عالمی منظر نامے میں کہاں رکھ کر دیکھا جائے گا یہ کچھ سوال جو بڑی شدت کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوے ہیں اور جن کی بابت سوچنا بھی مغرب اپنی سوہان روح جانتا ہے کچھ اتنے بڑے بڑے سوال ہیں کہ پچھلی دو تین صدیوں میں اتنے دلچسپ سوال دنیا کے اندر شاید کبھی کھڑے نہ ہوے ہوں حتٰی کہ عالمی جنگوں کے خاتمے پر۔ بھی نہیں۔
اللّه ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
تحریر:: مالک جوہر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *