تھکا سفر
سانس کی ابتدا ہوتے ہی انسان سفر کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے یہ سفر نہیں دیکھتا کہ کوئی چلنا بھی چاہتا ہے کہ نہیں کبھی چھوٹی چھوٹی خواہشات ہمیں اپنے پیچھے لگا لیتی ہیں تو کھبی اندھے خیالات اپنی جانب دورنے پر مجبور کر دیتے ہیں. پتہ بھی نہیں چلتا کب اس اندھے لنگرے سفر میں عمر آدھی ہو جاتی ہے اور پھر بھی ہم خالی ہاتھ کھڑے ہوتے ہیں. ان تھکی آنکھوں اور بھاری وجود کے نیچے جو ذات بکھر جاتی ہے وہ دراصل پر کشش جوانی اورمعصوم روح ہوتی ہے
جو تمناؤں کے خالی پیالے میں اپنا آپ ڈھونڈنے میں لگے رہتے ہیں. اور اچانک پتہ چلتا ہے کہ ہم جس سفر میں مگن تھے وہ تو بے معنی سا تھا اس سفر نے تو عمر کے آ دھے سکھ چھین لیے، جھریاں بتاتی ہیں کہ ہم کتنا تھک گئے ہیں، آنکھوں کی شور مچاتی نمی سرخ ڈوڑں میں پھانسی لیے دہائی دے رہی ہوتی ہے کہ کتنا ظلم ہو گیا زندگی کے ساتھ. گزرتا وقت کانپتے ہاتھ اور تھرتھراتے لب بیان کرتے ہیں کہ کتنا کچھ برباد ہو گیا انجانی راہوں پے چلتے چلتے
نہ کھل کر مسکراے نہ دل سے زندگی کی طرف ہاتھ بڑھایا. ٹوٹا ہوا انسان ہی بتا سکتا کہ وہ کس شدت سے جرنے کے لیے تڑپ رہا ہے وہی اپنی خالی آ نکھوں سے سمجھا سکتا ہے کہ وہ کتنی آرزو سے واپس زندگی کو گلے سے لگانا چاہتا ہے. اندر ہی اندر سوکھی حلق سے اٹکے سانس کو باہر نکال کر پھینک دینا چاہتا ہے جو اسے نہ چیخنے دیتا ہے نہ بولنے دیتا ہے.
مگر وقت کا یہ ظلم اس کے اپنے ہاتھوں سے اپنے ہی ساتھ ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے تجربہ کار مثال جانا جاتا ہے. چاہ کر بھی اپنے آپ کو اس تکلیف سے باہر نہیں نکال سکتا جو اس کے لیے اس بیوہ کی مانند ہوتی ہے جو بے سہارا، بے آسرا پتھر کی آنکھوں میں خوابوں کو ایک ایک ذرے کے نیچے دفن کرتی ہے. اور چاہتی ہے کہ خوشبودار زندگی جیے مگر یہ ممکن نہیں ہوتا.
اسی طرح ہارا ہوا شخص اپنے سفر کی تھکان کو اپنے بوجھل وجود سے اتار کر زندگی کے حقیقی رنگوں میں واپس لوٹنا چاہتا ہے اور یہ ممکن نہیں ہوتا کیونکہ اس دوران وہ سب کچھ ختم کرتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا یہ بھی نہیں دیکھتا کہ پیھچے پلٹنے کے لیے کوئی راہ بھی بچی ہے کہ نہیں.
بس پھر زندگی کی ساری شوخیاں گنواے یہ انجانا تھکا انسان تھکے سے سفر میں اکیلا اس درخت کی طرح کھڑا رہتا ہے جس پر نہ خزاؤں کا خوف ہوتا ہے نہ بہاروں کی آمد کا انتظار.
Bohat khub sister