۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ افسانہ خودکشی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حامد نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی .اس کے ابو پیشے کے لحاظ سے ایک معمولی کسان تھے ۔وہ پانچ بہنوں کا اکلوتااور سب سے چھوٹا بھائی تھا۔ ہر والد کی طرح اس کے ابو کا بھی ایک حسین خواب تھا. وہ اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے انہوں نے اپنے اس حسین خواب کی تکمیل کے لیے اس کو غربت کے باوجود ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں تعلیم دلوائی ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے آخرکار میٹرک کا امتحان اعلی نمبروں سے پاس کرلیا لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ میٹرک کے بعد حامد کے ابو کینسر جیسی مہلک بیماری سے خدا کو پیارے ہوگئے وہ اپنی زندگی میں اپنا خواب پورا ہوتا نہ دیکھ سکے۔ یوں اس گھرانے کا واحد چراغ بجھ گیا۔ انسان کی ایک سوچ ہوتی ہے ہوتا وہی ہے جو رب چاہتا ہے ۔
والد کی وفات کے بعد گھر بھر کی تمام ذمہ داریاں اب اس کی والدہ پر تھی۔ انہوں نے یہ زمہ داری لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کے نھبانے لگی ۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ کس حال میں گھر بار کی زمہ داریاں پوری کر رہی ہیں تا کہ اس کی تعلیم میں خلل پیدا نہ ہو ۔
وقت کی چکی گھومتی گئی بدلتے حالات، گریلو اخرجات اور پریشانیوں کی وجہ سےاب حامد کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہو رہا تھا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری حوصلے اور لگن سے وہ دن کے وقت کالج اور شام کے وقت ایک میڈیکل سٹور پر کام کرنے لگاوقت کے پہیے کے ساتھ اس نے ابو کی خواہش کی تکمیل کے لیے دن رات ایک کر کے بی ایس سی کرلی لیکن
اب اس کی والدہ عمر کے تقاضے کے لحاظ سے اکثر بیمار رہنے لگی اور گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ اب اس کے سر پرآن پڑا ۔گھر بھر کے تمام اخراجات کے علاوہ والدہ کا علاج معالجہ، بہنوں کے ہاتھ پیلے کرنا اس کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔ بی ایس سی کے بعد یہ ایک پرائیویٹ کالج میں استاد تعینات ہو گیا۔ لیکن پرائیویٹ استاد کی معمولی تنخواہ سے گھر کا نظام چلانا بہت مشکل تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے گورنمنٹ نوکری کے لئے بہت جدوجہد کی لیکن رشوت، سفارش کہاں سے لاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ جہاں بھی گورنمنٹ نوکری کی درخواست دیتا ٹیسٹ انٹرویو کے بعد بات ختم ہو جاتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اس کے پاس نہ تو سفارش تھی اور نہ ہی رشوت کے لئے پیسے۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہر وقت یہی رٹ لگاے رکھتا سرکاری نوکری ان کے لیے جن کے پاس سفارش یا پیسہ ۔۔۔۔۔۔۔۔بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت اور افلاس اور گھریلو مشکلات نے اس کو مایوس بنا دیا تھا۔ وہ ہر وقت اسی سوچ میں ڈوبا رہتا کہ میری والدہ اور بہنوں کا مستقبل کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے ہر طرف سے مایوسی اور ناکامی کے بعد مزید کوشش کرنا چھوڑ دی۔ وہ مشکلات و مسائل کی دلدل میں گرتا چلا گیا۔ انہی سوچوں نے اسےڑیپریشن کا مریض بنا دیا ۔ اب وہ اپنے گھر اور دوسروں سے الگ تھلگ رہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب بیچارے حامد کے پاس اس مہنگائی ،بیروزگاری، اور گھر یلو مشکلات کا کوئی حل نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے خود کشی کو ہی اس کا حل سمجھا اور اپنی خو بصورت زندگی کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔
جس کو ملازمت وطن میں ملا نہ کرے
تو وہ خود کشی نہ کرے تو اور کیا کرے۔