عمر اب اداس اداس رہنے لگا۔کھانا پینا کم کردیا ابو کی بات کا گہرا اثر لیا اپنے دل پر اور اندر ہی اندر غم پال لیا۔دوسری جانب افشاں عمر سے ملنے کے لیئے بیقرار تھی۔کیوں کہ اس کے شب وروز عمر کے بغیر گزارنا مشکل ہو گے تھے۔آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی تھی۔والدین اپنی اولاد کی اس حالت سے بےخبر تھےآخر کاردونوں میں یہ طے پاتا ہے۔کچھ بھی ہوجائے ہم جدا نہیں ہونگے۔
عمر افشاں کو ایک خط لکھتا ہے ۔جس کا خلاصہ کچھ اسطرح ہے۔جان میں تمھارے بغیر رہ نہیں سکتااگر تم مجھے نہ ملیں تو میں مرجاؤنگا۔میرا کسی چیز میں دل نہیں لگتا۔تم سے باتیں کرنے اور ملنے کو جی چاہتا ہے۔مجھے پتہ ہے تم بھی مجھ سے پیار کرتی ہو۔میں نے تمھاری آنکھوں میں اپنا پیار دیکھا ہے۔میں اپنا فون نمبر بھیج رہا ہوں مجھ سے رابطہ کرو۔اگر ہمارے گھر والے نہ مانیں تو ہم گھر سے بھاگ کر شادی کرلیں گیں۔ شادی کے بعد وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑسکتے ہم بالغ ہیں ۔اپنی زندگی کا فصیلہ کرسکتے ہیں۔ اچھا جان اب میں تمھارے جواب کا انتظار کروں گا۔ یہ سب تحریر کرنے کہ بعد عمر خط کو تہ کر کے اپنی سا ئیڈ ٹیبل کے دراز میں رکھ دیتا ہے۔اور سوجاتا ہے۔صبح ہوتے ہی عمر اچھے سے تیار ہوکر باہر جانے لگتا ہے۔اس کی امی کہتی ہے کہاں جارہے ہوں ۔عمر جواب دیتا دوستوں کے ساتھ کرکٹ کیھلینے جارہا ہوں۔یہ کہ کر وہ باہر چلا جاتا ہے۔عمر سوچتا ہے کہ خط کو افشاں تک کیسے پہنچائے ۔
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا ہوتا ہے۔ کہ افشاں کے گھر کا دروازہ کھلتا ہے۔ وہ اپنی امی کے ساتھ کہیں جارہی تھی جب اس کی نظر مجھ پر پڑتی ہے تو عمر لگتا ہے وہ بھی اس کو ملنے کے لیئے بیقرار تھی۔اس کے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔لیکن وہ کھل کر اظہار نہیں کر پاتی کیوں کہ اس کی امی اس کے ساتھ تھی۔عمر ان کے پیچھے پیچھے چل پڑتا ہے۔ افشاں بھی بار بار پیچھے مڑ مڑ کے دیکھ رہی ہوتی ہے۔