مذہب عمل گرا
دنیامیں ایک مکتب ہے جسے مکتبِ عمل گرا کہتے ہیں۔ اس مذہب کے پیروکار کہتے ہیں کہ دلیلوں اور حقانیت کے پیچھے نہ جائیں بلکہ آپ دیکھیں کہ کس چیز کا نتیجہ اچھا نکلتا ہے اور وہی اس کی دلیل ہے۔اگر عملی نتیجہ مذہب سے اچھا نکلتا ہے تومذہب ٹھیک ہے اوراگر عملی نتیجہ لادینیت سے نکلتا ہے تو اسی کو کہتے کہ یہ درست ہے۔ یہ دنیا کے اندر باقاعدہ ایک مکتب ہے جو حق گرا مکتب نہیں بلکہ عمل گرا مکتب ہے۔
اس مذہب کے پیروکار نتیجہ پرست لوگ ہیں جو یہ نہیں دیکھتے کہ کوئی چیز حق ہے یاباطل ہے بلکہ حق و باطل کی بحث میں پڑے ہی نہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ حق و نا حق بحث کی سب سے فضول بحث ہے آپ فقط یہ دیکھیں کہ اس سے نتیجہ نکلتا ہےیا نہیں نکلتا۔اگر کسی چیز سے مطلب حاصل ہوتا ہے تو وہ ان کے نزدیک ٹھیک ہے۔ اگر پوچھیں کہ عدالت ٹھیک ہےیاظلم تو وہ کہتے ہیں کہ اس بحث میں نہ پڑو کہ کیا ٹھیک ہےآپ یہ دیکھو کہ آپ کے لیے نتیجہ کیا نکلتا ہے۔اگر ظلم سے آپ کا سسٹم ٹھیک چلتا ہے تو وہ ٹھیک ہے اور اگر عدالت سے ٹھیک چلتا ہے تو عدالت ٹھیک ہے۔
عملاً اس وقت سب نتیجہ گرا اور نتیجہ پرست ہیں ۔ حق پرستی فقط شعار اور نعرہ ہے جبکہ عملی فیصلے اور اقدام سب نتیجہ پرستی کے ہیں جیسے اگر الیکشن جیتنا ہے تو کس طرح جیتنا ہے اس کے لیے ہر نسخہ اور تجویراپناتے ہیں اگر دھاندلی سے جیت سکتے ہو تو وہ بہترین راستہ ہےاگر ووٹ چوری کرنے ہیں تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہےاگر ووٹ خریدنے پڑتے ہیں تو خریدلو اگر جھوٹ کا سہارا لینا ہےتو اسے بھی آزمالوکیونکہ آپ نتیجہ کےپابند ہواور ذریعہ آزاد ہے۔ اسی طرح اگر مہمان ہیں تو ان کا پیٹ بھرنا ہے اپنا مال ہو یا غیر کا مال ہو۔ ایسے اعمال کو جرم بھی شمار نہیں کرتے ہیں جیسے آج آل سعود ، امریکہ ،اسرائیل اور یورپ جو کچھ کر رہے ہیں ان میں سے کوئی بھی جرم شمار نہیں ہوتا۔ پوری دنیا میں اتنے کھلے اور بڑے جرم کرتے ہیں اور کوئی چیز جرم نہیں سمجھا جاتااس لیے کہ سب کا مکتب نتیجہ پرستی ہےاس نظریہ کے تحت جو بھی قدم کو تقویت دیتا ہے ، آپ کی اقتصاد مضبوط کرتا ہے، آپ کا ملک مضبوط کرتا ہے اور آپ کے اقتدار کو مضبوط کرتا ہےوہ سب جائز ہے ۔ آپ یہ نہ کہو کہ فلاں کام ناجائز ہوا ہے ناجائز صرف وہ کام ہوتا ہےجو آپ کو کمزور کرتا ہے جس قدم سے نتیجہ نہیں نکلتا ہے وہ غلط قدم ہےاور اس کا شمار جرائم میں ہوتا ہے۔ آج کی دنیا کی سوچ کا یہ مدار ہے اور ایسی سوچ اس لیے پیدا ہوگئی ہے کہ یقینی معرفت کو چھوڑ کراس کی جگہ پر غیر یقینی چیز کو متبادل بنایا گیا جس سے یہ سب تباہی مچ گئی ہے۔