اگر آپ کی معیشت تباہ ہو رہی ہے تو سمجھو آپ برباد ہونے والے ہو-اگر آپ کسی ملک کی معیشت کمزور کر دو گے تو وہ زندہ نہیں رہ سکے گا-باوقار اور خود کفیل طرز زندگی ہمیں کبھی دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور نہیں کرتا- اگر آپ قرض لیتے رہو گے تو ملک کی معیشت ڈوب جائے گی-امام صاحب مقروض کے نمازِ جنازہ نہیں پڑھاتے-قائد آعظم ؒ نے 24 اکتوبر 1947 کو عیدالضحیٰ کے موقع پہ فرمایا تھا”ہم جتنی زیادہ تکلیفیں سہنا اور قربانی دینا سیکھیں گے اتنی ہی زیادہ پاکیزہ، خالص اور مضبوط قوم کی حیثیت سے ابھریں گے-جیسے سونا آگ میں تپ کر کندن ہو جاتا ہے”-
معیشت ایک بہت مشکل سبجیکٹ ہے-ہر بندہ اسے سمجھ سکتا ہے نہ اس پہ بات کر سکتا ہے-مگر میں اپنے گھر کی معیشت کو کافی بہتر سمجھتا ہوں-ہر گھر کا سربراہ جو گھر چلا رہا ہوتا ہے وہ معیشت کے اسرار و رموز جانتا ہوتا ہے- جب ہماری فصل بہت اچھی ہوتی تھی مثالی پیداوار ہوتی تھی ہم اس سال خوب موج مستی کرتے تھے اور جب موسمی تبدیلیوں کے پیشِ نظر ہماری فصلیں کم ہوتی تھیں –ہمارا طرز زندگی یکسر بدل جاتا تھا-ہماری معیشت کمزور ہو چکی ہوتی تھی-ہمیں تکلیفیں سہنا اور قربانی دینا پڑتی تھی –ہم اس عید پہ کپڑے نہیں سلواتے تھے پچھلی عید والے پہن لیتے تھے-شادی پہ کپڑے نہیں بنواتے تھے گزشتہ شادی والے پہن لیتے تھے-ہمارا کھانا پینا بہت سادہ ہو جاتا تھا-
خود انحصاری-
ہمارے ہاں چنا کی پیداوار بہت زیادہ ہوتی ہے –ہم چنا کی فصل کے محتاج ہو جاتے تھے-چنا بونے کے بعد تقریبا” دو ڈھائی ماہ کا عرصہ مشکل ہوتا تھا –بس جیسے ہی چنے اُگتے تھے ہم خود انحصار ہو جاتے تھے -ان کی کونپلیں ابھی نرم ہوتی تھیں ہم اس کو توڑ کر ساگ کی طرح پکا لیتے تھے-کبھی چٹنی بنا لیتے تھے-کچھ دنوں بعد جب وہ پھل اٹھا لیتا تھا ہم چنے کے کچھ پودے پورے اکھاڑ کے اس کو بیری کی سوکھی لکڑیوں پر جلا کر بھون لیتے تھے اور سب لوگ دائرے کی صورت میں بیٹھ کر مزے مزے سے کھاتے تھے-جب چنا ابھی کچا ہوتا تھا ہم اس کا مٹر کی طرح سالن بنا لیتے تھے سچ وہ سالن بہت مزیدار ہوتا تھا-پھر جب فصل پک کر تیار ہو جاتی تھی ہم چنے کا سالن بناتے رہتے تھے-گھر کی چکی میں پیس کر اس کی دال بنا لیتے تھے – کچھ تو ہم پکا کر دال کا سالن بنا لیتے تھے کچھ ہم بھون کر جیب میں ڈال کر سکول لے جاتے تھے اور دوستوں کے ساتھ مل کر کھاتے تھے-چنوں سے جو بائی پروڈکٹ ملتی تھی اسے مسہ کہتے ہیں مسہ ہم مویشیوں کو کھلاتے تھے-
مویشیوں سے بھی ہمیں سادہ گزر بسر میں بہت مددملتی تھی-ہم کبھی کبھی سالن نہیں بناتے تھے – دودھ ، دہی ، لسی سے روٹی کھا لیتے تھے-کبھی مکھن پہ گڑ ڈال کر تو کبھی دیسی گھی میں شکر ڈال کر کھانا کھا لیتے تھے-کبھی کوئی گھر کی مرغی بھی ہلال کر لیتے تھے-دودھ اور انڈے بیچ کر اللہ کے شکر سے مشکل وقت گزر جاتا تھا-گاؤں میں گھر کے قریب اسکول تھا ٹاٹ پر بیٹھ کے پڑھ لیتے تھے-مسجد میں امام صاحب قرآن کا سبق دے دیتے تھے-سو ہماری تعلیم بھی جاری رہتی-گاؤں کے آس پاس خوب کھیلتے اور یوں روکھی سوکھی کھا کر دن گذار لیتے تھے-ہماری معیشت ٹھیک تھی-پڑوسی سے قرض نہیں لیتے تھے-سود پہ بنک سے قرضہ نہیں لیتے تھے-
ملکی قرضہ-
اب جب میں سفر کر رہا ہوتا ہوں اکثر مجھے مختلف بنکس سے کال آتی ہیں بنک کے نمائندے مجھے قرض لینے کے مختلف طریقے بتا رہے ہوتے ہیں-ترغیب دے رہےہوتے ہیں-کبھی کسی انشورنس کمپنی کا نمائندہ پالیسی لینے کے لئیے رابطہ کر رہا ہوتا ہے-بنک کا دارو مدار قرضوں اور سود پر ہوتا ہے وہ آپ کو قرض دے کر سود وصول کرتے ہیں اور اس رقم سے بنک چلتے ہیں-بالکل اسی طرح بین الاقوامی اداروں اور بنکوں نے اپنے مفاد کی خاطر ہمارے ملک کو گھیر لیا ہے-جب ہم گاؤں کے کسان اتنی کسمپرسی میں سادہ زندگی گذار رہے تھے تو ہماری حکومتیں با وقار اور خود کفیل طرز زندگی کی حکمت عملی کیوں نہیں اپنا رہی تھیں-ہم تکلیفیں سہ رہے تھے قربانی دے رہے تھےتو ہمارا ملک قرضوں کی دلدل میں دھنس رہا تھا-آخر کیا ایسی مشکلات آ گئی تھیں کہ ہم قرض لینے پہ مجبور ہو گئے تھے-کیا اس ملک کے معیشت دان بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر ملک کی تقدیر سے کھیل رہے تھے-حکومت نے ایک کمیشن اس کی تحقیق کے لئے بنایا ہے اگر وہ کہ دے گا کہ قرضے بلا ضرورت لئے گئے تھے تو کیا قرضے معاف ہو جایئں گے-